ہم بھیک نہیں بلکہ لاپتہ افراد کیلئے قانون کے تحت انصاف چاہتے ہیں – ماما قدیر بلوچ 

220

بلوچستان کے دارالحکومت کوءٹہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3575دن مکمل ہوگئے ۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماوں اور کارکنان، انسانی حقوق کی کارکن حمیدہ نور سمیت دیگر افراد نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔

عوامی ورکرز پارٹی کے لیبر سیکرٹری منظور بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ عام ہوگیا ہے ۔ ان لاپتہ افراد میں ایسے لوگ ہے جن کا کوئی قصور نہیں ہے جنہیں اٹھایا جاتا ہے یا ان کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہے ۔ ہمارے پیاروں کو جن میں دس سے پندرہ سال کے بچے شامل ہے جو دہشت گرد نہیں ہوسکتے ہیں لیکن انہیں دہشت گرد قرار دیکر لاپتہ کیا جاتا ہے ۔ ہم لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور ہماری کوشش ہوگی کہ ان کے لواحقین کے جدوجہد میں ان کا ساتھ دے ۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین تمام مصائب کے باوجود اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ۔ لواحقین بارہا اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ہم پاکستانی مقتدرہ قوتوں سے بھیک نہیں مانگتے ہیں بلکہ ان کے پیاروں کو قانون و آئین کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے جرم ثابت ہونے پر قانون کے تحت ان افراد کو جو سزا دی جائے ہ میں قبول ہے ۔ لواحقین یہ بھی مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ اگر ان کے پیاروں کو دوران حراست شہید کیا گیا ہے تو ان کی لاشیں ہمارے حوالے کی جائے تاکہ ان کے کرب میں مبتلا روحوں کو قرار نصیب ہوسکے ۔

انہوں نے کہا لاپتہ افراد کے مسخ شدہ کے ملنے پر پاکستانی ریاست اور اس کے تسلط کے خلاف شدید نفرت کی آگ پھیل رہی ہے اس سے پاکستانی فورسز سمیت تمام مقتدرہ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر تنہا اور کمزور ہونے کے ساتھ اندرونی طور پر سیاسی و سماجی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہورہے ہیں ۔