بلوچوں کی نسل کشی، پاکستان کا اعترافی بیان
تحریر: نودشنز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکسستانی فوج کی بربربت اور ظلم کی وجہ سے آج بلوچستان میں انسانی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، جو زندگی کے اصل معنی ہیں وہ درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں اور موت ہر وقت بلوچوں کے سر پہ منڈلاتی رہتی ہے۔ پچھلے کئی وقتوں سے بلوچوں کو اٹھاؤ غائب کرو پھر انکی لاشیں ویرانوں اور جنگلوں میں بر آمد ہونا عام سی بات ہوگئی ہے اور پاکستان کی حکومت نے یہی موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ یہ جتنے بھی لاپتہ افراد ہیں یہ بیرون ملک میں ہیں یا پہاڑوں پہ ہیں اور یہ مسخ شدہ لاشیں اکثر ذاتی لڑائی اور دشمن داری کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں ۔
مگر پچھلے کئی وقتوں سے کچھ ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں، جن سے یہ بات صاف ظاہر ہورہا کہ ان تمام چیزوں کے پیچھے پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں ہیں اور پاکستان کی حکومت خود یہ اعتراف کر رہا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ کوئی نہیں جانتا حقیقت کیا ہے سب جانتے ہیں حقیقت یہی ہے کہ ان لوگوں کو اغواء کرنا یا انہیں مارکر لاشیں پھینکنے کے پیچھے پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں ہیں مگر پھر بھی دنیا خاموش ہے اور اس وقت پاکستان کی حکومت خود اعتراف کر رہا ہے کہ اس کے پیچھے ہم اور ہمارے ادارے ہیں ۔
کچھ وقت قبل جب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان پاکستان کے سینیئر صحافیوں سے جب بات چیت کررہے تھے تو پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے جب مسنگ پرسنز کے ایشو کو چھیڑا تو پاکستان کے وزیر اعظم نے صاف الفاظ میں یہ کہا تھا کہ ان تمام چیزوں کے پیچھے پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں ہیں۔
کل ہی کی بات ہے جب پاکستان کے قومی اسمبلی میں بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے مسنگ پرسنز اور مسخ شدہ لاشوں کے ایشو کو اٹھایا اور کہا کہ ہمارے چھ نکات میں یہ طے ہوا تھا کہ حکومت فوجی بربریت کو بند کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں بل پش کریگا وہ ابھی تک نہیں ہوا ہے، تو جواباً حکومت پاکستان کے وزیر برائے ہیومن رائٹس شیرین مزاری نے صاف الفاظ میں یہ کہا کہ کچھ ادارے یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہم پہلے والے پالیسی کو ترک کریں مطلب یہی ہوا یہ جو اٹھاؤ غائب کرو اور مارو پھینکو۔ ایک ایسی پالیسی ہے جو اس وقت پاکستانی پارلیمنٹ میں بحث ہورہا ہے کہ اس پالیسی کو ترک نہیں کیا جائیگا۔
ان تمام چیزوں کے بعد یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ یہ جو انسانی حقوق کے ادارے ہیں جو انسانیت انسانیت کا نعرہ لگا لگا کر پوری دنیا کو سر پہ اٹھائے ہوئے ہیں تو ایک ملک کے سب سے بڑے ادارے میں یہ بحث ہوتا کہ جو انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے والی پالیسی ہے اور انسانیت کو چیلنج کرنے اور انسانیت کو ختم کرنے کی مترادف ہیں، اس پالیسی پہ کیوں خاموش ہیں کل تک دنیا یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں ان چیزوں کے بارے میں ثبوت چاہیئے، اب اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ایک وزیر اعظم اور وزیر برائے ہیومن رائٹس خود یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ان تمام چیزوں کے پیچھے پاکستانی ادارے ملوث ہیں پھر بھی دنیا اور انسانی حقوق کے ادارے کیوں خاموش ہیں؟
کیا بلوچ انسان نہیں ہیں؟ کیا جینیوا کنویشن اور انسانی حقوق کے چارٹر میں یہ درج ہے کہ پاکستان کو کھلی چھوٹ اور استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ بلوچوں کی نسل کشی کرے؟ اگر اس طرح نہیں ہے تو پاکستان خود یہ اعتراف کر رہا ہے، جی ہاں ہم بلوچوں کی نسل کشی کررہے ہیں اور یہ ہمارے پالیسیوں میں شامل ہیں اور اس وقت ممکن نہیں ہے کہ ہم اس پالیسی کو ترک کریں۔
آج ایک ملک کے سب سے بڑے ادارے پارلیمنٹ میں یہ بحث ہوتا ہے کہ بلوچوں کی نسل کشی پاکستانی کے پالیسیوں میں شامل ہے، یہ انسانی حقوق کے اداروں کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے اور یہی ظاہر کرتا ہے یہ انسانی حقوق کے ادارے دکھاؤ کے لیئے ہیں اور مظلوم کے ساتھ دینے کے بجائے یہ بھی طاقت کے غلام ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔