اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں رواں سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران شدت پسندوں کے مقابلے میں نیٹو اور افغان فورسز کی کارروائیوں میں زیادہ عام شہری ہلاک ہوئے۔
اقوامِ متحدہ کے اعانتی مشن برائے افغانستان نے بدھ کو جاری کی جانے والی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ افغان فورسز اور اس کی اتحادی غیر ملکی افواج کی کارروائیوں میں ہونے والی شہری ہلاکتیں طالبان اور دیگر شدت پسندوں کی کارروائیوں میں مرنے والے عام لوگوں کی تعداد سے بڑھ گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری سے مارچ کے عرصے کے دوران افغانستان میں پرتشدد واقعات میں 1773 عام شہری ہلاک یا زخمی ہوئے۔
یہ تعداد گزشتہ سال کے ابتدائی تین ماہ میں ریکارڈ کی جانے والی شہری ہلاکتوں سے خاصی کم ہے۔ جنوری تا مارچ 2018ء میں افغانستان میں 2305 عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔
گزشتہ سال عام شہریوں کے زیادہ جا نی نقصان کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں ہونے والے خود کش حملے تھے جن کی تعداد رواں سال اب تک نسبتاً کم رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال یکم جنوری سے 31 مارچ تک افغانستان میں مختلف حملوں اور پرتشدد کارروائیوں میں 581 عام شہری ہلاک اور 1192 زخمی ہوئے۔
زخمیوں کی بڑی تعداد طالبان اور دیگر شدت پسندوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنی۔ لیکن ہلاک ہونے والوں میں سے 305 عام شہری افغان فوج، پولیس اور ان کے نیٹو اتحادیوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں جان سے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ان میں سے نصف عام شہری فضائی حملوں میں مارے گئے جب کہ باقی نصف شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں اور چھاپوں کے دوران فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اس عرصے کے دوران سرکاری سکیورٹی فورسز اور ان کے غیر ملکی اتحادیوں کی کارروائیوں میں 303 عام شہری زخمی بھی ہوئے۔ اس کے مقابلے پر طالبان اور شدت پسندوں کے حملوں میں زخمی ہونے والے عام افراد کی تعداد 736 رہی۔
اقوامِ متحدہ نے افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکت کے اعداد و شمار 2009ء میں اکٹھے کرنا شروع کیے تھے جس کے بعد سے عالمی ادارہ وقفے وقفے سے اس بارے میں اپنی رپورٹ جاری کرتا رہتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ 2009ء سے اب تک افغانستان میں 75 ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔