جنگ زدہ بلوچستان میں پاکستان کے جرائم اور دنیا کی خاموشی ۔ کمال بلوچ

322

جنگ زدہ بلوچستان میں پاکستان کے جرائم اور دنیا کی خاموشی

تحریر:۔کمال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

پاکستان کی جانب سے جنگی جرائم کا ارتکاب عالمی اداروں میں اکثر زیر بحث رہتی ہے۔ اپنے وجود سے لے کر آج تک پاکستان تمام انسانی حقوق اور عالمی اصولوں کو پاؤ ں تلے روندھ رہا ہے۔ بر صغیر کی تقسیم کے بعد جو صورت حال پاکستانی پنجاب میں ہوا تھا، وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہ تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اور جن قوتوں نے پاکستان بنایا وہ اسے اس خطے میں ایک پریشر گروپ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے، جو پاکستان کی جانب سے بخوبی تکمیل کی جا رہی ہے۔

آج تک پاکستان اپنے غیر انسانی کردار پر عمل پیرا ہے۔ سوا ل یہ پیدا ہو تا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کون پاکستان سے سوال کرے؟ پاکستان میں انسانی حقوق کی اہمیت کیا ہوگی، جسے پاکستانی اختیار دار روزانہ پامال کر رہے ہیں۔ لیکن انسانی اقدار کے علمبردار ممالک اور دوسرے قائم ادارے اور ان کا کردار بھی بلوچستان میں نظر نہیں آتا ہے۔

پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے، جس نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ وہ اسکی مکاریوں سے خوف زدہ ہیں۔ شاید اسی وجہ سے عملی اقدامات اُٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ افغانستان، ایر ان اور بھارت میں پاکستان اپنے بنائے ہوئے انتہا پسندوں کو بھرپور استعمال کر رہا ہے۔ اب اس بات کا اعتراف انکے حکمران طبقے خود کرتے آرہے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کیا۔ عمران خان کو پاکستان کے دوسری سیاسی جماعتیں قبول نہیں کر رہے کیونکہ ان کا موقف ہے کہ عمران خان کو فوج نے ہم پر مسلط کیا ہے۔ (گوکہ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے نام نہاد پارلیمنٹ کا انتخاب جی ایچ کیو میں ہوتا ہے، جیسے کہ خود نواز شریف اور زرداری ہوئے ہیں)۔ اسی فوج کا کہا نہ ماننے پر نوازشریف اور آصف زرداری سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ طرز عمل پاکستان کے سیاست میں ہر وقت پایا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کا وجو د بلیک میلنگ کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے۔

خیر! میں کہہ رہا تھا کہ ”عمران خان کہتا ہے ہماری فوج نے وہ انتہا پسند بنائے ہیں، جو آج افغانستان اور بھارت میں دہشت پھیلا چکے ہیں“۔ اس سے پہلے کی بھی بہت سی مثالیں مو جود ہیں۔ پاکستان کے سابقہ ڈکیٹٹر جنرل پرویز مشرف کہتا ہے کہ حافظ سعید سمیت تما م وہ جہادی جو جہاد کے نام پر افغانستان وبھارت میں جنگ کررہے ہیں وہ ہمارے ہیرو ہیں۔ ایک ملک کا سربراہ کسی ٹی وی پروگرا م میں اقرار کرے تو اس سے بڑا ثبو ت اور کیا؟ لیکن دنیا میں قائم انسانی حقوق کے ادارے بھی کچھ نہیں کر سکے ہیں۔ اس سے مراد لینا بہت ہی آسان ہے؛ پاکستان کے پیچھے جو قوتیں موجود ہیں وہ طاقت کا سر چشمہ ہیں جو اس خطے میں اس طرح کے ملک کے وجو د کو بر قرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے مفادات کو تحفظ دے سکیں۔

پاکستانی مظالم کے بارے میں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم بنگلہ دیش جاکر تحقیق نہیں کر سکتے ہیں لیکن ہم صدیق سالک کی کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے ہوا دیکھا ‘‘ پڑھ سکتے ہیں جو پاکستان کے ایک اپنے بیو روکریٹ لکھ چکا ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات اس کتاب میں بند کی ہیں۔ یا ہم بالی وڈ کا فلم children of war دیکھ سکتے ہیں جو بنگلہ دیش پر بنی ایک فلم ہے۔ یہ آن لائن ایپلیکیشنز اور ویب سائیٹس پر بھی دستیاب ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے جرائم اتنے ہیں کہ ہم جتنا بحث کریں یہ وسیع ہوکر صفحہ در صفحہ بھر دیں گے۔

یہ بنگلہ دیش کی خو ش قسمتی تھی کہ اسے بھارت جیسا ایک ہمسایہ میسر تھا۔ بنگالیوں نے بہت ظلم و ستم برداشت کی۔ آج وہ ایک آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ فی الحال میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا کہ بنگالی قوم آج کتنی غربت کا شکار ہے۔ گوکہ جد ید دنیا میں تر قی کی اُس سطح پر مو جود نہیں لیکن آج دنیا میں جہاں کہیں جائیں انکا وجود موجود ہے۔ ایک بنگالی کو بنگلہ دیشی پکارا جاتا ہے۔ یہ شناخت انکی قربانیوں کے بدولت ہے جو 1952سے شروع ہو کر 1971 کو ایک خوشگوار نتیجے پراختتام پذیر ہوا۔ آج اس کی معیشت پاکستان سے بہتر ہے۔

بلوچستا ن میں نہ رکنے والی جنگ جو 1948کو شروع ہوا تھا آج تک جاری ہے، اس جنگ میں پاکستانی فوج نے تمام عالمی اصول اور انسانی حقوق کو نظر انداز کر کے بلوچستان کے دارلحکومت قلات پر حملہ کیا جو ایک غیر اعلانیہ جنگ (Undeclared War) کی شروعات ہو تی ہے۔ اسی دن سے بلوچستان کے فرزند اپنی دفاع میں صدا بلند کرتے آرہے ہیں۔ جب بھی بلوچ اپنی دفاع میں کوئی موثر آواز بلند کرتے ہیں تو پاکستانی فوج کی تشدد میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

جس طرح سیاہ فام افریقیوں کی تاریخ موجود ہے، جو ہماری رہنمائی کرتی ہے؛ سیا ہ فام افر یقوں کی تاریخ جہاں سفید فام آکر انکی روایات کو پائمال کر کے ان پر حکمرانی کرتے ہیں۔ افریقیوں کا جو سماج تھا وہ بلوچ سماج سے مشابہت رکھتی تھی۔ وہاں بھی قبائلی نظام پا یا جاتا تھا۔ لوگوں میں مذہب کا احترام مو جود تھا تو انکو قبائلیت اور مذہب دونوں کے نام پر تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے سفید فام ان پر حکمرانی کرتے رہے۔ ساتھ ہی مذہب کو بہت خوب استعمال کیا گیا۔ تاریخ کہتا ہے جب سفید فام وہاں آتے ہیں تو انکے پاس بائیبل ہوتا ہے۔ چند سال بعد دیکھتے ہیں کہ سیاہ فام کے ہا تھوں میں بائیبل ہے اور سفید کے پاس زمین۔ سفید فام حکمرانی کر رہے تھے۔ اس طرح ان پر امر یکی اور پر تگالی ،فرا نسی حکمرانی کرتے رہے اورسیا ہ فاموں کو قبائلوں میں تقسیم کرتے گئے۔ انکے اندر جو رواداری پا یا جاتا تھا اُسے ختم کیا گیا۔ اس طرح انکا سماج تقسم در تقسیم کا شکار ہوتا گیا اور سفید فاموں کی حکمرانی میں بیچارے سیاہ فام ظلم و ستم سہتے رہے۔

ہم مشاہدہ کریں تو بلوچ قوم اسی صورت حا ل سے دوچار ہے۔ ہمیں تقسیم در تقسیم کیا جا رہا ہے۔ سیا سی بالیدگی نظر نہیں آرہا ہے جس سے دشمن واپس جانے پر مجبور ہو۔ یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ دشمن کی ظلم و ستم کا انتہا ہو چکا ہے لیکن ہم قبائلی فرسودہ سوچ اور مذہب پر قوی یقین رکھ کر خاموش ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے۔ اس خاموشی پر مجھے اس پادری کے وہ الفاظ یاد آجاتے ہیں جو سیاہ فام کیلئے کہا گیا ہے کہ ”اللہ نے ہمارے نصیب میں یہ تشد د لکھی ہے ہمیں تشدد برداشت کرنا چاہیئے“۔ لیکن اس بات کو بھولنا نہیں کہ تشد د برداشت سے ختم نہیں ہو تی۔ اگر اس طرح ہوتا تو یہ تشدد 1948سے لے کر آج تک بلو چستان میں ختم ہوتا۔ تشدد کو ایک انقلا بی تشدد پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ منظم حکمت عملی ہو اور اس میں اتفاق و اتحاد موجود ہو۔

دنیا کے مہذب اداروں نے ہر چیز کے لیئے ایک اصول قائم کی ہے، مگر کچھ دانشور کہتے ہیں کہ جنگ میں کوئی اصول نہیں ہوتا۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے لیکن عالمی اداروں نے کچھ اصول قائم کیئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اصول ضرور ہوں لیکن جنگ کو جنگ سے ختم کیا جاتاہے۔ خصوصاً جنگی اخلاقیات میں بچوں اور عورتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جو ان سے بھی مبرا ہے۔ بنگلہ دیش اور بلوچستان واضح مثالیں ہیں۔ اس وقت ہز راوں بلوچ فرزند پاکستان کے قلی کیمپوں میں اذیت برداشت کررہے ہیں۔ انہیں نہ جنگی قیدی قرار دیا جاتا اور نہ ہی منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ نو عمر بچوں سے لے کر 90 سال کی بزرگ بھی پاکستانی اذیت خانوں میں مقید ہیں۔

ایک اور دل خراش خبر جسے بابو جنرل شیروف (شیرو مری) ایک ویڈیو میں بیان کرتے ہیں؛ 1970میں بلوچ مزاحمت کی وجہ سے بلوچ علا قوں سے فوجی آپر یشن کے ذریعے سے بلوچ بچیوں اور خواتین کو اغوا کر کے انکو لاہور میں لے جایا کرتے تھے۔ ،یہی سلسلہ تاحال موجود ہے۔ گذشتہ چند سالو ں سے ایک دفعہ پھر بلوچستان میں جد وجہد میں تیزی کی وجہ سے بلوچ خواتین اور بچوں کے اغواء کا سلسلہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ کوہستان سے لے کر مکران تک یہ عمل جاری ہے۔

1971میں مشکے سے بلوچ خو اتین کو اغواکرکے انکو جہازوں کے ذریعے پھینک دیا گیا۔ آج ایک دفعہ پھر یہاں سے بلوچ خواتین کا جبری اغوا جاری ہے۔ گذشتہ روز آواران کے علا قے پیراندار سے شاہناز بی بی، اسکا ایک سالہ بچہ، نازل بیبی،صنم بی بی، چھوٹی بچی ماہ دیم سمیت دیگرخو اتین کو اغو ا کیا گیا۔ پاکستانی فوج کے ہا تھوں اغوا کا سلسلہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زور و شور سے جاری ہے۔ کئی لوگ اور اس کے فیملی ارکان خو ف کی وجہ سے میڈیا میں نہیں آتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ پاکستان جنگی جرائم کا مرتکب ہے لیکن دنیا کی خاموشی چہ معنی دارد؟

اس وقت بلوچ قوم کا سوال یہ ہے کہ بلوچوں کے ساتھ اس طرح کا ناروا سلوک کیوں رکھا جا رہا ہے؟ کیا بلوچ قوم عالمی اصولوں کے مطابق حق آزاد ی کے لئے بر سرپیکا ر نہیں ہے؟

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔