بلوچ قوم کے نام – آزاد بلوچ

1266

بلوچ قوم کے نام

آزاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں اس بات پہ محو حیرت میں مبتلا ہوں کہ آیا ہماری قوم ”بلوچ“ حقیقت میں بہادر و با ضمیر ہے یا نام نہاد ہے۔ موجودہ عہد میں تو یہ بالکل بہادری اور غیرت سے کھوکھلا دکھ رہا ہے۔

تاریخی پس منظر پہ اگر نظر ڈالا جاۓ تو یہ قوم ”بلوچ“ بہت بہادر اور غیرت رکھنے والا قوم مانا جاتا تھا۔ لیکن تحیرانگیز بات یہ ہے کہ نہ اس میں غیرت مندی نظر آرہا اور نہ ہی بہادری، کیونکہ ایک بہادر قوم پر کبھی دشمن کا دہشت غلبہ نہیں پاتا۔

یہ قوم جو دنیا کی دوسرے اقوام سے ہر صورت میں مستثنیٰ ہے، جس کی تاریخ میں بہادری اور غیرت و حیا مندی کی ثنا ٕ اور مثالیں پیش ہوٸی ہیں، اور اب یہ قوم اپنی غیرت و ضمیر صرف دشمن کے ڈر و دہشت سے ان کو بیچ کر اس کے ساتھ رہنے پر قاٸل ہے۔ اور تو اور، یہ قوم (بلکہ ہم”بلوچ“) اپنی ہی نسل کشی میں دشمن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اِس سے بڑی حِماقت کیا ہو سکتی ہے۔

ایک طرف دشمن اپنی چالبازی و ہوشیار حکمت عملی سے اپنے منصوبوں کی تکمیل میں دور نہیں، دوسری طرف ہم بلوچ قوم اپنی حماقت سے باز نہیں آتے اور اپنے غلام ہونے کی حقیقت سے باخبر اور آگاہ ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔

مجھے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ ہمارے بیرونی ہمدرد و حامی تحریک و تنظیم، ممالک اور انقلاب و آزادی پرست لوگوں تک یہ خبر، کہ یہ قوم صرف نام نہاد بہادر اور غیرت مند قوم ہے نہ پھیلے، تو وہ اپنا ساتھ اور ہمدردی چھوڑ دینگے یہ سوچ کر کہ یہ قوم تو خود اپنی غلامی پہ خوش ہے اور اس پر مقبول ہے، اور بزدلانہ طور پر اپنا گھر و زمین اور غیرت و ضمیر دشمن کو بیچ ڈالا ہے، اور کٹھ پتلی کی طرح اس کے احکامات اور اشاروں کے مطابق ناچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اگر دنیا کو یہ خبر معلوم پڑ گٸی کہ اس قوم کی غیرت و بہادری کی خصوصیات کی بات میں کوٸی متانت اور سچاٸی نہیں ہے تو بین الاقوامی سطح پر نہ ہی صرف ہم بزدل قوم تصور ہونگے بلکہ ہماری عظیم شخصیات جو مادرِ وطن بلوچستان کے لیٸے قربانی دے کر گذر چکے ہیں، جو بلاشبہ ہماری ”بلوچ“ کی پہچان بھی ہیں، ان کی قدر و تعظیم میں، اور ہماری تاریخ و تہذیب کی صداقت کی اہمیت میں ایک بڑا زوال و کمی آجاۓگی۔

میں بالکل اپنے بلوچ قوم سے ہی مخاطب ہوں۔ اور اب ان سے تھوڑے نا مناسب الفاظ میں کچھ مظاہرہ کرنا چاہونگا، شاید اس سے ان میں تھوڑا شعور آجاۓ، کہ ”زمین اپنی ماں ہوتی ہے، اور اپنی زمین سے غداری کرنا یا اس کی قبضہ گیریت کے خلاف آواز یا قدم نہ اٹھانا ایسا ہے جیسے اپنے ماں کا سودا کرنا یا اس کی آبرو لٹنے میں خاموش رہنا۔“

اگر ہم دیکھیں تو بلوچستان میں سیاسی و باشعور کئی بلوچ ہیں، جو بجائے اپنے وطن کے حفاظت کیلۓ، اپنی آذادی کیلۓ اور اس کی قبضہ گیریت کے خلاف بندوق اٹھا کے جہد کریں وہ دشمن کیلۓ بندوق اٹھا چکے ہیں، یہ بھول کر کہ وہ کون ہیں، ان کی حیثیت کیا ہے، دشمن کے سامنے۔ یہ نہ صرف اس طرح کے بلوچ کی ایک بڑی حماقت ہے بلکہ جیسے اوپر میں نے ذکر کیا تھا کہ اپنی ماں کی آبرو لٹنے پر خاموش رہنا، جیسا ہے۔

دنیا میں ہر قوم اپنی دیش و سرزمین کو اپنی ماں سمجھتی ہے اور اسی کو حیثیت و قدر دیتی ہے اور اس کیلۓ اپنی جان تک بھی قربان کرنے کیلۓ تیار ہوتے ہیں، جب اس پر کوٸی ہاتھ ڈالے یا اس پر کوٸی غلبہ پانے کی کوشش کرے، تو یہ ایک ناقابل قبول ہوتی ہے۔ رہی بات ہماری قوم کی جو کہنے کو بہت بہادر اور حیادار ہے، یہ کب اپنی سرزمین کو اپنی ماں کی حیثیت سے دیکھےگی؟ کب اس میں شعور آۓگا؟ کب اپنے غلام ہونے کی حقیقت سمجھےگا؟ کب اپنے مقبوضہ زمین کو آزادی دلانے کیلۓ متحد ہو کر اٹھےگا؟

اگرچہ بلوچ قوم ایسے احساسات اور جذبات سے مقفود ہے، یہ اب تک اپنی قابض و غاصِب کو اپنا وطن مانتا ہے، بے وقوف! جس نے اس پر بظاہر قبضہ کیا ہے یہ اسی پر قاٸل ہے۔ یہاں تک کہ قابض/دشمن کا پرچم بڑے فخر کے ساتھ اٹھا کر، ہاتھ میں پکڑ کر ان کے تقریبات میں اور ان کے رسمی ایّام میں اکثر برابر شریک ہوتا ہے۔ بالکل ہی بھول جاتا ہے کہ وہ ایک مقبوضہ اور غلام قوم ہے۔ یہ ہے ہمارے قوم کا شعور۔ بےشرمی، حماقت، اور بزدلی کی انتہاء ہو گٸی ہے بلوچ قوم میں۔

علاوہ ازیں، دوسری طرف ہمارے قوم پرست، محب وطن، آزادی پسند، بلوچ جہدکار اپنے مادرِوطن ”بلوچستان“ کے لیٸے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، جو اپنا گھر بار، اپنے ماں باپ، بھاٸی بہن اور رشتہ دار سب چھوڑ کر اپنے وطن و سرزمین کی حفاظت کیلۓ، اس کی آزادی کیلۓ پہاڑوں میں بہت ہی ناخشگوار و اجیرن جگہوں میں رہ کر جدوجہد کر رہے ہیں، جن کی وجہ سے ہماری تاریخ، ہماری شخصیات، اور ہمارا نام اب بھی یاد کیۓ جاتے ہیں اور جانے جاتے ہیں۔ وگرنہ ہمارے جتنے بھی نظریاتی سنگت و شخصیات جنہوں نے سرزمینِ بلوچستان کیلٸے قربانیاں دی ہیں، وہ گمنام قبرستانوں میں دفن ہوتے اور انہیں کوٸی یاد کرنے والا ہوتا نہ فاتحہ دینے والا ہوتا اور نہ ہی ان کی قربانیوں کو سراہنے والا ہوتا۔

اس کے علاوہ جو سب سے افسوسناک پہلو ہوتا، وہ ان شہیدوں کا نام اور کردار بلوچ تاریخ میں نوشتہ/قاٸم کر نے والا بھی نہ کوٸی ہوتا۔ اگر آج ہمارا نام (بلوچ قوم کو) دنیا میں جانا جاتا ہے تو وہ صرف اور صرف ہمارے پہاڑوں میں جہد کرنے والے بلوچ Baloch Freedom Fighters، ہمارے قربانی وجان دینے والے بلوچ جو اپنے وطن بلوچستان کیلۓ اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں، کی بدولت ہے۔

اس تحریر میں میرا مٶقف واضح طورپر بیان نہیں ہے، لیکن اگر زندہ رہا تو اگلی تحریر میں تفصیل سے ہر بول و منطِق کا مظاہرہ کرونگا۔

اس کے ساتھ ساتھ میں تمام شہداۓ بلوچستان کو اور ان تمام سنگتوں کو جو سر پہ کفن باندھ کے ہمارے وطن بلوچستان کی قبضہ گیریت کے خلاف ایک سپر پاور ملک سے بہادری کے ساتھ لڑ رہے ہیں، خراجِ تحسین و سلام پیش کرتا ہوں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔