سب سے بڑا بزدل وہ ہے، جو موت سے ڈرتا ہے
تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عظیم فلسفی ارسطو کا کہنا ہے کہ ’’جن مملکتوں میں معاشرتی فلاح اور اخلاقی اصول و ضوابط کا خیال نہیں کیا جاتا، وہاں عوام حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔” اسی طرح وہ فرماتے ہیں “معاشی عدم مساوات کا احساس ،سیاسی جانبداری ،متوسط طبقے کا نہ ہونا اور انتہا پسندانہ نظریات بالآخر انقلاب کا باعث بنتے ہیں‘‘۔
اس حوالے سے جب ہم قابض ریاست پاکستان کی پالیسیاں دیکھتے ہیں تو بلوچستان میں انقلابی سوچ کا بار بار روشناس ہوکر پیداہونا ایک فطری عمل کہا جائے گا، اور شہید غلام محمد بلوچ کے انقلابی سیاست کا آغاز بھی مندرج بالا بتائے گئے فرمودات کی روشنی میں ابھر کر پورے بلوچستان میں جڑ پکڑنا اور سامنے آناانہی کا حصہ ہوگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب یہ بلوچ مرد آہن اپنے قوت بازواور غیور بلوچستان کے عوام کے طاقت سے قابض ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں تو ہر سمت سے بلوچستان کے باسی اندرون سے لیکر بیرونی ممالک میں مقیم مردوخواتین بلا رنگ ونسل ومذہب اور زبان کے اس کشتی میں سوار ہوجاتے ہیں، جس کا منزل آزادی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے بڑے، دانا، نادان،عالم، جاہل،خواندہ، نیم خواندہ، شہری یا دیہاتی ،الغرض مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سرزمین کے فرزند آزادی کے شمع کو چیئرمین کی قیادت میں ایسا روشن کرتے ہیں کہ دشمن ریاست کوجان کے لالے پڑجاتے ہیں۔
اگر ہم یہ کہیں کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے، یہ قومی مسیحا نہ صرف دشمن قابض ریاست پاکستان بلکہ بلوچستان پر دشمن کی ایماء پر شب خون مارنے والے ان سردار اورنوابوں کا بھی دشمن نمبر ایک تھا یا پہلے صف میں کھڑا تھا تو غلط نہ ہوگا۔ یہ بلوچستان کے سرزمین کی خوش نصیبی ہے کہ چیئرمین غلام محمد بلوچ ،بالاچ بلوچ ،صباء دشتیاری اکبر خان بگٹی ، ڈاکٹر اللہ نذراور استاد اسلم جیسے ایسے قومی سپوت اس انقلابی جہد کا حصہ بنے، جنھیں دشمن کیلئے جھکانا، انکے سوچ اور نظریئے کو مٹانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ثابت ہوا۔
زمینی حقائق ہمارے سامنے ہیں، ان مسیحاؤ ں میں سے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے علاوہ تمام کودشمن نے اپنے مکاری اور دہشت گردی سے جسمانی طورپر عوام کے سامنے سے وحشیانہ اور درندگی سے ہٹادیا، مگر انکے فکر، نظریہ اور انقلاب کیلئے روشن کئے گئے شمع کو کبھی بھی بجھا نہ سکا بلکہ اس شمع کی روشنی دن دگنی، رات چوگنی ترقی کرکے ایسا منور ہواکہ بیرونی ممالک کے تہذیب یافتہ اقوام کو بھی گہری غفلت کے نیند سے بیدار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
آج الحمداللہ بلوچستان کے ہمسایہ ممالک سمیت دوسرے خلیجی یورپی اور افریقی اقوام میں بھی کسی نہ کسی حوالے سے قابض ریاست پاکستان کی بلوچستان پر جبری قبضے اور بلوچ قوم کی نسل کشی بابت بات اور اس کی سرزنش ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ جو بلوچ قوم سمیت بلوچستان کے دوسرے رہنے والے اقوام کیلئے ایک خوش خبری کا پیغام ہے کہ اب مذید پاکستان اور اس کے استحصالی ممالک چین اور سعودی عرب بلوچستان کے ساحل اورمعدنی وسائل آسانی سے نگل نہیں سکتے، کیونکہ یہ سرزمین لاوارث نہیں اس سرزمین کیلئے ہزاروں قومی مسیحاؤں اور فرزندون نے کفن باندھ کر اس کی رکھوالی اور غلامی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر جسمانی یا سیاسی نظریاتی اور فکری طورپر دشمن کیلئے اژدھا بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ اورکسی بھی لمحے وہ قابض ریاست کو اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ عالمی دنیا کو بھی اب یہ ادراک ہوچلا ہے کہ دہشت گرد ملک پاکستان میں چیئرمین غلام محمد جیسے بے باک سیاستدان ،اور صباء دشتیاری جیسے علم کے عظیم استاد محفوط نہیں تو دوسرے لوگ کیسے اور کیوں محفوظ ہونگے۔ یہی بلوچستان میں بسنے اورپاکستانی ظلم کے چکی میں پسنے والے مظلوم اقوام کیلئے فخر کا مقام ہے کہ جنھیں شہید غلام محمد بلوچ سمیت ایک ایسے نڈر لیڈروں کا گل دستہ نصیب ہوا، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آئے عہد کریں ہم چیئرمین شہید غلام محمد بلوچ سمیت دوسرے ہزاروں شہداء اور ٹارچر سیلوں میں اذیت، بربریت سہنے والے قومی فرزندوں کے کاروان کے شمع کو کبھی بھی گل ہونے نہ دیں گے اورہر وقت عظیم فلسفی ارسطو کے اس فرمان کویاد کرکے آگے قدم بڑھائیں گے ’’ سب سے بڑا بزدل وہ ہے جو موت سے ڈرتا ہے‘‘۔ ہم موت سے نہیں ڈریں گے،کیونکہ نہ ڈرنے کا سبق ہم نے واجہ غلام محمد بلوچ سمیت وطن کے ہزاروں شہدا ء سے سیکھا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔