شہید اسد یوسف اور جد وجہد
حاجی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ انسان زندہ رہنے کے لیئے اپنے پاس کوئی بڑا مقصد اور بڑا نظریہ رکھے، ورنہ انسان کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی جھک جاتا ہے، تھک جاتا ہے، اور بک جاتا ہے۔ شہید کامریڈ اسد یوسف عرف شیہک نہ کبھی جھکنے والا ساتھی تھا، نہ تھکنے والا اور نہ ہی کبھی بک جانے والا ساتھی تھا۔
شہید اسد یوسف اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیئے، بلوچ قومی نام کو زندہ رکھنے کے لیئے، تاریخ میں امر ہوگئے۔ ایک عظیم مقصد اور نظریہ لے کر وہ قربان ہوگئے۔ وہ عظیم مقصد اور نظریہ تھا، بلوچ قومی آزادی اور بلوچ قوم کو غلامی کی زنجیروں سے چھٹکارا دلانا، اور بلوچ قومی ریاست کو دنیا کے نقشے پر واپس قائم کرنا، آسان الفاظ میں اپنی آزادی کو واپس بحال کرنا ان کا مقصد اور شیوا تھا۔
جس آزادی کو پاکستان نے 1948 میں ہتھیا لیا تھا، اسی دن سے لیکر آج تک بلوچ قوم اپنی چھینی ہوئی آزادی کو واپس بحال کرنے میں ہزاروں جان قربان کرچکا ہے، اور قربانی کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔
اسی طرح مجھ سمیت پورے بلوچ قوم کو معلوم ہے،31 مارچ 2019 کو ایک عظیم کردار کے مالک،عظیم شخصیت عظیم سرزمین کے بیٹے، شہید کامریڈ اسد یوسف نے اپنی جان بلوچ قومی تشخص، بلوچ قومی خوشحالی، بلوچ قومی آزادی، سرزمین بلوچستان کے لیئے قربان کیا، جو بلوچ تاریخ میں ایک عظیم نام اور سنہرے الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔
شہید اسد یوسف ہم سے جسمانی حوالے سے جدا تو ہوگئے، لیکن فکری حوالے سے آج بھی ہمارے ساتھ ہیں، کیونکہ بعض قسم کے انسان ہوتے ہیں، وہ جسمانی اور فکری دونوں حوالے سے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، یہ وہ انسان ہوتے ہیں، جن میں نہ کوئی قومی فکر وجود رکھتا ہے، نہ قومی خیال، قومی فرض، نہ دنیاوی کردار ،اور نہ آخرتی۔ ایسے انسان بس زمین پر بوجھ اور گوشت بن کر اس فانی دنیا سے رخصت و وداع ہوتے ہیں۔
اس دنیا میں جتنے بھی شخصیتیں پیدا ہوئے ہیں، کبھی کوئی گمنام و بے نام،غیرمشہور، نیست و نابود نہیں رہے، اور نہ ہی رہینگے،حضرت آدم سے لیکر آج تک دنیا میں جتنے بھی بڑی شخصیتیں گذرچکے ہیں، ان کے نام آج بھی زندہ اور تاابد زندہ ہیں،اور زندہ رہینگے۔
آج میں ایسے ہی ایک شخصیت کے بارے میں بتارہا ہوں، جس کے نام کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں، شہید کامریڈ اسد یوسف جو حال ہی میں کچھ دنوں پہلے بلوچستان کے ڈسٹرک پنجگور بالگتر میں دشمن فوج کے ساتھ دو بدو لڑائی میں شہادت کا مرتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، اور تاریخ میں اپنا نام، مقام و مرتبہ حاصل کرکے ہمیشہ کے لیئے امر ہوگئے۔
شہید اسد یوسف کے اعلیٰ فکر، اور بلند تخیل اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر آج بھی بلوچ نوجوان جوق در جوق شریک ہورہے ہیں، اور ہونا چاہتے ہیں۔ بلوچ تحریک میں شامل ہونے کا عمل، داخل ہونے کا، شریک ہونے کا عمل بلوچ قومی آزادی کے بحالی تک، آزادی کے تکمیل تک جاری رہے گا۔
سلام پیش کرتا ہوں! شہید اسد یوسف کو جس نے اپنی مسرت، خوشی، اور شادمان زندگی کو چھوڈ کر صرف بلوچ قومی آزادی کو اپنا مسرت،خوشی،مشن اور مقصد بنایا تھا۔ دکھ تو بہت ہوا پر شیہو اسد اس عظیم راہ آزادی کے حصے میں شہادت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔