ان تینوں ممالک نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کے نام ایک خط لکھا ہے اور اس میں ایران کی جانب سے فروری میں دو نئے بیلسٹک میزائلوں کی رونمائی اور ایک خلائی گاڑی کو فضا میں چھوڑنے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مذکورہ قرارداد جولائی 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان تاریخی سمجھوتا طے پانے کے فوری بعد منظور کی تھی۔اس میں ایران پر زور دیا گیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کے حامل بیلسٹک میزائلوں سے متعلق کوئی سرگرمی انجام نہ دے۔
مگر ایران کا بالاصرار یہ کہنا ہے کہ اس کا میزائل پروگرام دفاعی مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری صلاحیت کو ترقی دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے جبکہ مغربی اور بعض عرب ممالک اس پر میزائل ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے الزامات عاید کررہے ہیں۔
ان تینوں ممالک نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس سے خط میں کہا ہے کہ وہ ایران کی بیلسٹک میزائلوں سے متعلق سرگرمی کے بارے میں اپنی آئندہ رپورٹ میں مکمل تفصیل بیان کریں ۔ان کی یہ رپورٹ آئندہ ماہ جون میں متوقع ہے۔
ان سے قبل امریکا نے بھی سلامتی کونسل سے اسی قسم کی اپیل کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کردی جائیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال مئی میں ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور اس کے خلاف دوبارہ اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔انھوں نے ایران کی میزائل ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کو اس فیصلے کی وجہ جواز قرار دیا تھا۔دسمبر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران کے میزائل پروگرام پر روک لگانے کے لیے سخت قدغنیں عاید کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن روس نے اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران کے میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔