دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج جاری جبکہ لاپتہ عبدالحئی کرد کے لواحقین نے ان کے گمشدگی کے حوالے سے پریس کانفرنس کی۔اس موقعے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ، بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ، وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ، انسانی حقوق کی کارکن حمیدہ نور بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین موجود تھی۔
لاپتہ عبدالحئی کرد کی بہن مادیم بلوچ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جس درد اور تکلیف سے میں اور میرا خاندان گزررہا ہے اس کا اندازہ صرف انہی لوگوں کو ہوسکتا ہے جن کے پیارے کھوچکے ہیں، لفظ لاپتہ سننے میں عام الفاظ جیسا ایک لفظ ہے مگر اس لفظ سے جڑے تکالیف کو الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں۔ میں اور میرا خاندان گذشتہ 11مہینے سے اسی عذاب سے دوچار ہیں میرے بھائی عبدالحئی کرد کو 21مئی2018کو بولان کے علاقے مچھ سے گھر سے فرنٹیئر کور اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد اٹھاکر لے گئے۔
انہوں نے کہا عبدالحئی کے لاپتہ ہونے کے بعد پورے خاندان کی زندگی درہم برہم ہوچکی ہے۔ ہم غریب زمیندار پیشہ لوگ ہیں میرا بھائی اپنے خاندان کا واحد کفیل ہے، میں جانتی کہ تعلیم کے بدلے میرے آنکھوں کا تارا مجھ سے چھن جائے گا تو میں انہیں کبھی بھی اپنے آپ سے دور جانے نہیں دیتی۔ میرے والد روروکر کہتے ہے کہ عبدالحئی کو واپس لاؤ میں انہیں کبھی تعلیم حاصل کرنے کیلئے کہیں نہیں بھیجوں گا اپنے پاس رکھوں گا ۔
مادیم بلوچ نے مزید کہا کہ میں بی اے تک تعلیم حاصل کرچکی ہوں اور آگے پڑھناچاہتی تھی کہ میرا بھائی لاپتہ کیا گیا جس کے باعث میں پڑھائی ادھوری چھوڑ کر کبھی یہاں تو کبھی وہاں ماری ماری پھرتی ہوں۔ میں مایوسی میں امید اور حوصلے کے سہارے جی رہی ہوں کہ ایک دن عبدالحئی کو واپس لاؤں گی۔ جہاں بھی مجھے ایک چھوٹی سی امید نظر آتی ہے تو فوراً وہاں پہنچ جاتی ہوں اور اُس دروازے کو کھٹکٹاتی ہوں، لوگ تعاون کرتے ہیں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے لوگوں نے میرے ساتھ تعاون کیا ہے ، لوگوں کے دلوں میں میری آواز پہنچتی ہے لیکن پاکستان کے اداروں کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے ان تک انسانوں کی آواز نہیں پہنچتی اگر ایسا ہوتا تو کم از کم ایک دربدر بیٹی کی آواز ضرور ان کے کانوں تک ان کے دلوں تک پہنچ جاتی۔
انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صحافت ایک مقدس پیشہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں حق و صداقت کیلئے آواز اٹھائی جاتی ہے، آپ میری آواز ریاست کے عدلیہ اور ایوانوں تک پہنچائیں اور یہ سوال اٹھائیں کہ میرے بھائی کو کس قانون کے تحت اٹھایاگیا ہے جبکہ ریاست پاکستان کا آئین کسی طور سے اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ میں آئین کے مطابق انصاف چاہتی ہوں جن کا ضامن ریاست ہے اور اگر ریاست آئین و قانون کے خلاف کوئی اقوام کرتا ہے تو یہ عدلیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کا ازالہ کرے۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 9کے تحت کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جب قانون اس کی اجازت دے اور آرٹیکل 10کی شق (ا) کے تحت کسی شخص کو جسے گرفتار کیا گیا ہو مذکورہ گرفتاری کی وجہ سے جس قدر جلد ہوسکے، آگاہ کیئے بغیر نہ تو نظر بند رکھا جائے گا اور نہ اُسے اپنی پسند کے کسی قانون پیشہ سے تعلق رکھنے والے شخص سے مشورہ کرنے اور اس کے ذریعے صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم کیا جائے گا۔شق (۲) کے تحت ہر اُس شخص جسے گرفتار کیا گیا ہو اور لاپتہ کیا گیا ہو اور لاپتہ رکھا گیا ہو مذکورہ گرفتاری سے چوبیس گھنٹے کے اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہوگا لیکن مذکورہ مدت میں شامل نہ ہوگا جو مقام گرفتاری سے قریب ترین مجسٹریٹ کی عدالت تک لے جانے کیلئے درکار ہو اور ایسے کسی شخص کو کسی مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر مذکورہ مدت سے زیادہ لاپتہ نہیں رکھا جائے گا۔
مادیم بلوچ نے کہا کہ میں جانتی ہوں میرا بھائی بے گناہ ہے اگر میرے بھائی سے کسی بھی قسم کا غیر قانونی عمل ہوا ہے تو اسے عدالت کے سامنے پیش کریں۔ جس دن میرے بھائی کو بولان کوہ باش ہوٹل کے قریب اٹھایا گیا تھا میں نے اپنی فریاد حکام بالا اور انسان دوست لوگوں تک پہنچانے کیلئے ہر ادارے کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن میں نے مایوس ہونے کی بجائے اپنی فیملی کے ساتھ بھوک ہڑتالی کیمپ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اس کے بعد ایف آئی آر درج کرانے مجھے اس سے زیادہ مشکلات اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑا، اپنے بھائی کی بازیاب کیلئے یہ سب مشکلات کا سامنا کیا کہ جب بات عدلیہ تک پہنچے گی تو مجھے جلد انصاف ملے گا۔
انہوں نے کہا مجھے اب تک مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا ہے لیکن میں مایوس نہیں ہوں میرا ایمان ہے کہ انسانیت زندہ ہے، انسانی ضمیر اب بھی باقی ہے میں انسانیت اور انسانی ضمیر سے سوال کرتی ہوں کہ کیا ہم جنگل میں رہتے ہیں جہاں جنگل کا قانون رائج ہے بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ قانون کہیں دفن ہوچکا ہے۔
انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا صرف میری کانفرنس کو رپورٹ نہیں کریں بلکہ آپ میری آواز بنیں، آپ کے قلم میں طاقت ہے، قلم ایک مقدس امانت ہے اس قلم کو حق و انصاف کیلئے اٹھائیں اور میں حکومت پاکستان، عدالت عظمیٰ، انسانی حقوق کے اداروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے بھائی کی باحفاظت بازیابی کیلئے آواز اٹھائیں میرے خاندان کو اس درد سے نجات دینے میں میری مدد کریں۔
دریں اثناء عبدالحئی کرد کے لاپتہ رشتہ داروں کے لواحقین نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
انسانی حقوق کی کارکن حمیدہ بلوچ نے ان کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہاایک ہی خاندان سے تین افرادٹکری عبدالواحدکرد ولد حاجی غلام قادر، داد محمدکرد ولد غلام قدر سکنہ مستونگ کو02جون 2010سے لاپتہ کیا گیا ہے۔ان کے لواحقین پچھلے دس سالوں سے ان کے منتظر ہے جبکہ لاپتہ عبدالحئی کرد سکنہ بولان بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا لاپتہ افراد کے کیسز پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرے اگر یہ افراد قتل مجرم ہوتے بھی تو وہ دس سال کی سزا کھاٹ چکے ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکمرانوں، خفیہ اداروں کا جبر، تشدد اور نسل کشی کی کاروائیاں بلوچ قوم کی جدوجہد کو متزلزل نہیں کرسکتی ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی تاریخی بھوک ہڑتالی کیمپ اپنے حق اور ظلم و جبر کے خلاف انسانی حقوق اور لاپتہ افراد کیلئے ثابت قدمی کی روشن مثال بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بلوچ نسل کشی میں عالمی امداد اور عالمی اداروں کی خاموشی کو بھرپور استعمال کیا ہے اور تاحال اسی کوششوں میں ہے کہ عالمی منظرنامے پر ساکھ بچاکر بلوچ نسل کشی کیلئے اپنے ہاتھ مضبوط رکھ سکے۔ پاکستان کے دوغلے کردار اور خطے سمیت دنیا بھر میں بدامنی اور دہشتگردی پھیلانے میں پاکستان کی واضح کردار کے باوجود عالمی ادارے پاکستان کے خلاد قابل اقدامات سے گریزاں ہیں۔
ماما قدیر نے کہا کہ 27مارچ1948سے بلوچستان پر قبضہ کرکے بلوچ قوم کے تمام حقوق غضب کیئے گئے ہیں اور آج تک انسانی حقوق اور دیگر عالمی قوانین سے بلوچستان ماورہ رکھا گیا ہے۔ وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کے دعویدار کسی بھی ادارے نے بلوچستان میں جاری درندگی اور انسانی حقوق کے پامالیوں کاتدارک نہیں کیا اس صورتحال میں انسانی حقوق کے عالمی دن کی اہمیت پہلے سے ختم ہوجاتی ہے۔ بلوچستان کی صورتحال عالمی اداروں کے دعوؤں اور قوانین پرسوالیہ نشان ہے۔
واضح رہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو آج بروز سوموار 3536دن مکمل ہوچکے ہیں جبکہ احتجاجی کیمپ بلوچستان میں مختلف علاقوں لاپتہ افراد کے لواحقین آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرچکی ہے۔