موجودہ عالمی صورتحال کے سامنے لاپتہ افراد کے جدوجہد کو سیاسی طور پر مضبوط کرنا ہوگا- ماما قدیر بلوچ
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم احتجاجی کیمپ کو 3535دن مکمل ہوگئے۔ پنجگور سے سول سوسائٹی اور پاکستان تحریک انصاف ہرنائی سے وفود نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ لاپتہ گل محمد مری، امتیاز، مہر گل مری، غیاث الدین سمیت دیگرلاپتہ افراد کے لواحقین احتجاج میں شامل ہوئیں۔
ہرنائی سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اکبر خان ترین نے کہا بلوچستان میں لوگ لاپتہ ہے، ماما قدیر اور لاپتہ افراد کے خواتین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم حکومت پاکستان سے گزارش کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جلد از جلد اقدام اٹھانا چاہیئے کیونکہ یہ افراد بھی ہمارے بھائی ہے ، یہ لوگ یہاں سے لاپتہ ہوئے ہیں اور انہیں واپس یہی پر آنا چاہیئے۔
اکبر خان ترین نے کہا ہم اپنے پشتون اور بلوچ بھائیوں کے شانہ بشانہ ہے اور ان کے پیاروں کی بازیابی کیلئے آواز اٹھاتے رہینگے۔
یہ بھی پڑھیں: تمپ سے بلوچ ڈاکٹر فورسز کے ہاتھوں لاپتہ
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے بلوچستان میں دہشتگردانہ پالیسیوں کو تیز کرتے ہوئے روزانہ بلوچ آبادیوں پر فوجی آپریشنوں کا نہ رکھنے والا سلسلہ دوبارہ شروع کیا ہے۔گذشتہ ایک ہفتے میں کوہ ہستان مری، کوہلو، مشکے اور ضلع کیچ میں لوگوں کو آپریشن کا سامنا کرنا پڑا ہے اس دوران مختلف علاقوں سے لوگوں کو اغواء کیا گیا جبکہ مشکے سے خواتین بھی جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے ہیں، خواتین و بچوں کو اغواء کرنا شرمناک عمل ہے اس سے پہلے بھی آواران سے خواتین اور بچوں کو اغواء کیا گیا جو ابھی تک لاپتہ ہیں۔
انہوں نے کہا دنیا کی خاموشی برقرار ہے ، اسی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے تباہ حال بلوچوں پر اپنی بربریت جاری رکھی ہوئی ہے۔ پاکستان اپنے کاؤنٹر انسرجنسی پالیسیوں کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اپنے آزمودہ کارندوں، ڈیتھ اسکواڈ کو پُرامن جدوجہد کے خلاف میدان میں لاکر بلوچ نسل کشی کی ایک نئی اور خونی دور میں داخل کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ بلوچ نسل کشی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی تیاری کی جاچکی ہے۔
ماما قدیر نے کہا بلوچ قوم کی پُرامن جدوجہد ، مسلسل اغواء کیئے گئے بلوچوں کے اہل خانہ کی تاریخی بھوک ہڑتالی کیمپ میں شمولیت اور احتجاج نے دنیا کے ہر فورم تک بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی جبر کی آواز پہنچائی ہے۔اگر اب بھی عالمی اداروں کیخاموشی برقرار رہی تو دنیا بلوچ نسل کشی میں وہ برابر کی شریکقرار پائے گی۔موجودہ عالمی صورتحال اور پاکستان کے بدلتے ہوئے کاؤنٹر انسرجنسی حکمت عملیوں کے سامنے لاپتہ افراد کے جدوجہد کو سیاسی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔