بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان کے علاقے کولواہ میں ایک مہینے سے جاری آپریشن کے دوران عام لوگوں کی اغواء و قتل اور نکل مکانی پر مجبور کرنے کی ریاستی کاروائیوں کو کھلی جارحیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں نہتے عوام پر طاقت کا بے دریغ استعمال ایک عرصے سے جاری ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ فورسز اس بربریت کا دائرہ وسیع کرکے عام لوگوں کی مصائب و مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں۔ مکران سے لیکر کوہِ سلیمان تک کے علاقوں میں فورسز کی بربریت روز کا معمول بن چکی ہے، لیکن اس صورت حال کے باوجود انسانی حقوق کے مقامی اور بین الاقوامی ادارے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
بی ایس او آزاد ترجمان نے کہا کہ آواران، کیچ اور پنجگور کے درمیانی علاقوں میں گزشتہ ایک مہینے سے فورسز کے ہزاروں اہلکار آپریشن میں مصروف ہیں۔ آپریشن کے نتیجے میں اب تک دو افراد قتل کیے جا چکے ہیں جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہیں۔ فورسز کی آبادی کے اندر موجودگی اور لوگوں پر تشدد کی وجہ سے متعدد علاقوں سے لوگ نکل مکانی کر چکے ہیں۔ آپریشن سے متاثرہ علاقوں میں مواصلاتی نظام پہلے سے ہی فورسز کے کنٹرول میں تھی، ایک مہینے کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کولواہ کے داخلی اور خارجی راستوں پر بٹھائے سخت پہرے اب تک موجودہیں، عام لوگ کی نقل و حرکت کو زبردستی محدود کردیا گیا ہے جس سے متاثرہ علاقوں کے عوام ذہنی پریشانیوں سمیت معاشی مشکلات کا بھی شکار ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچوں کی ہمدردی میں مگرمچھ کے آنسو رونے والے پارلیمانی جماعتیں اس ننگی جارحیت پر خاموش ہیں۔ یہ جماعتیں جانتی ہیں کہ بلوچ عوام نے انہیں مسترد کردیا ہے اس لئے وہ فوج کے خلاف بولنے سے فوج سے مراعات حاصل کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے مراعات پسند گروہ تاریخ میں خود کو رسوا کرنے کا بندوبست ابھی سے کررہے ہیں۔
بی ایس او آزاد نے عالمی اداروں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بلوچستان پر جبری قبضے کی وجہ سے بلوچ گزشتہ سات دہائیوں سے مختلف پابندیوں اور نسل کشی کی کاروائیوں کا شکار ہیں۔ عالمی اداروں کی زمہ داری ہے کہ وہ بلوچ قتل عام کو روکنے کے لئے کردارادا کریں ۔