ہالینڈ: بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے سمینار میں بی این ایم رہنماؤں کی شرکت

190

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا کہ ہالین ایمسٹرڈیم میں ایچ آر سی بی اور ایمنسٹی انٹرنیشل اسٹوڈنٹس گروپ کی جانب سے ایک سیمینار بعنوان ‘‘ہمیں بلوچستان سے متعلق کیا جاننا چاہیئے’’ کے نام سے منعقد کیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشل اسٹوڈنٹ گروپ اور ایچ آر سی پی کے اشتراک سے بلوچستان تنازعہ اور بلوچستان کی انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے منعقد پروگرام میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے خارجہ امور کے ترجمان حمل حیدر بلوچ، ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کی جانب سے تاج بلوچ اور ڈچ صحافی سوزانہ کوستر سمیت ایمسٹرڈیم یونیورسٹی کے بین الاقوامی جنگی قانون کی پروفیسر ارمن فان ویلٹ نے شرکت کی۔

پروگرام میں بی این ایم کے خارجہ سیکریٹری حمل حید ر بلوچ نے بلوچستان کی صورت حال کے علاوہ پارٹی موقف پیش کی۔ سیمینار میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنان سمیت دیگر بلوچ سیاسی کارکنان اور مقامی طلباء سمیت دیگر افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ہالینڈ میں ہونے والا یہ سیمینار دو حصوں پر مشتمل تھا پہلے حصے میں تمام مقررین نے بلوچستان میں ہونے والے سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کے بابت پریزینٹیشن پیش کئے اور لوگوں کو بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے تفصیلی آگاہی فراہم کی۔

حمل حیدر نے اپنے پریزینٹیشن میں بلوچستان پر پاکستانی قبضے اور تاریخی حیثیت کے علاوہ موجودہ صورت حال کے بارے میں کہا کہ پاکستان بلوچستان کی صورت حال کو دنیا سے چھپانے کے لئے مختلف حربے استعمال کررہا ہے، انہوں نے مثال دے کر کہا بلوچستان میں جب زلزلے یا سیلاب جیسے قدرتی آفت آتے ہیں تو پاکستانی ریاست وہاں بین لاقوامی اداروں جیسے کہ ’’ڈاکٹر ودآوٹ بارڈرز‘‘ وغیرہ سمیت دیگر تنظیموں کو بلوچستان میں لوگوں کو مدد کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور پھر ان علاقوں جیش محمد اور لشکرطیبہ کی ذیلی دہشت گرد تنظیموں کو فلاحی کاموں کے آڑ میں بلوچستان میں منظم کرکے وہاں فرقہ واریت کی بیج بونے، مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دینے اور بلوچ عوام کومذہبی و مسلکی بنیادوں پر آپس میں دست و گریبان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

حمل حیدر نے دوران بحث یورپ و سمیت تمام ویسٹرن ملکوں میں مقیم جرنلٹس، انسانی حقوق کے اداروں سمیت اسٹوڈنٹس سے بھی اپیل کی کہ وہ اسی طرح بلوچستان کے مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھنے اور دوسروں تک بلوچوں کی آواز پہنچانے میں مدد کریں۔

ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کے چیئرمین تاج بلوچ نے دو ہزار ایک سے دو ہزار اٹھارہ تک بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کے سنگین پامالیوں اور پاکستان کے بربریت پر اسپیشل ڈاکومنٹری پیش کی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں خصوصی طور پر ایمنسٹی انٹرنیشل اور ایچ آر ڈبلیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسی تنظیمیں ہماری مدد سے بلوچستان کے متعلق حقیقی حالات سے باخبر رہ سکتی ہیں اگر وہ چاہیں تو ہماری ویب سائٹ میں موجود لاپتہ افراد کے کوائف اور دیگر ضروری ثبوتوں کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔

ڈچ صحافی سوزانہ کاسترو جو کافی عرصہ پاکستان میں گزار چکی ہیں انہوں نے اپنی اور باقی بین الاقوامی صحافیوں اور اداروں کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ پاکستان میں موجود ہیں اور کراچی اسلام آباد اور لاہور کے علاوہ کسی دوسرے شہر جانا چاہیں تو آپ کو اجازت ناموں کی خاطر گھنٹوں انتظار کرنے باوجود بھی اکثر اوقات آپ کو ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ملتی جہاں سنگین انسانی حقوق کی پامالیاں کی جاتی ہیں۔

پروفیسر ارمان دان ویلٹ نے بلوچستان میں جاری سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں لاپتہ افراد کے مسئلہ سمیت وہاں جاری نسل کشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جو واقعات ہوتے ہیں وہ اکثر میڈیا بلیک آوٹ اور پاکستانی سنسرشپ کی وجہ سے بیرون ممالک تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔

پروگرام کے دوسرے حصے میں اوپن ڈیبیٹ کی صورت میں تمام مقررین نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور عالمی ادورں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلی بحث کی اور بلوچستان میں جاری انسانی المیہ پر سنجیدگی سے سوچنے اور مسئلے کی عالمی سطح پر حل نکالنے پر زور دیا گیا۔

ایمنسٹی اسٹوڈنٹس گروپ کی پروگرام آرگنائزر ایما گیسنڈی بھی شامل تھیں،ایما گیسنڈی نے تمام شرکاء اور مقررین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم مستقبل میں بھی اس طرح کے سیمینار اور دیگر پروگرامز کا انعقاد کرکے بلوچستان کے سنگین مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کرینگے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا کہ ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں ایچ آر سی بی اور ایمنسٹی انٹرنیشل اسٹوڈنٹس گروپ کی جانب سے ایک سیمینار بعنوان ‘‘ہمیں بلوچستان سے متعلق کیا جاننا چاہیئے’’ کے نام سے منعقد کیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشل اسٹوڈنٹ گروپ اور ایچ آر سی پی کے اشتراک سے بلوچستان تنازعہ اور بلوچستان کی انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے منعقد پروگرام میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے خارجہ امور کے ترجمان حمل حیدر بلوچ، ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کی جانب سے تاج بلوچ اور ڈچ صحافی سوزانہ کوستر سمیت ایمسٹرڈیم یونیورسٹی کے بین الاقوامی جنگی قانون کی پروفیسر ارمن فان ویلٹ نے شرکت کی۔

پروگرام میں بی این ایم کے خارجہ سیکریٹری حمل حید ر بلوچ نے بلوچستان کی صورت حال کے علاوہ پارٹی موقف پیش کی۔ سیمینار میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنان سمیت دیگر بلوچ سیاسی کارکنان اور مقامی طلباء سمیت دیگر افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ہالینڈ میں ہونے والا یہ سیمینار دو حصوں پر مشتمل تھا پہلے حصے میں تمام مقررین نے بلوچستان میں ہونے والے سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کے بابت پریزینٹیشن پیش کئے اور لوگوں کو بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے تفصیلی آگاہی فراہم کی۔

حمل حیدر نے اپنے پریزینٹیشن میں بلوچستان پر پاکستانی قبضے اور تاریخی حیثیت کے علاوہ موجودہ صورت حال کے بارے میں کہا کہ پاکستان بلوچستان کی صورت حال کو دنیا سے چھپانے کے لئے مختلف حربے استعمال کررہا ہے، انہوں نے مثال دے کر کہا بلوچستان میں جب زلزلے یا سیلاب جیسے قدرتی آفت آتے ہیں تو پاکستانی ریاست وہاں بین لاقوامی اداروں جیسے کہ ’’ڈاکٹر ودآوٹ بارڈرز‘‘ وغیرہ سمیت دیگر تنظیموں کو بلوچستان میں لوگوں کو مدد کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور پھر ان علاقوں جیش محمد اور لشکرطیبہ کی ذیلی دہشت گرد تنظیموں کو فلاحی کاموں کے آڑ میں بلوچستان میں منظم کرکے وہاں فرقہ واریت کی بیج بونے، مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دینے اور بلوچ عوام کومذہبی و مسلکی بنیادوں پر آپس میں دست و گریبان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

حمل حیدر نے دوران بحث یورپ و سمیت تمام ویسٹرن ملکوں میں مقیم جرنلٹس، انسانی حقوق کے اداروں سمیت اسٹوڈنٹس سے بھی اپیل کی کہ وہ اسی طرح بلوچستان کے مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھنے اور دوسروں تک بلوچوں کی آواز پہنچانے میں مدد کریں۔

ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کے چیئرمین تاج بلوچ نے دو ہزار ایک سے دو ہزار اٹھارہ تک بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کے سنگین پامالیوں اور پاکستان کے بربریت پر اسپیشل ڈاکومنٹری پیش کی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں خصوصی طور پر ایمنسٹی انٹرنیشل اور ایچ آر ڈبلیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسی تنظیمیں ہماری مدد سے بلوچستان کے متعلق حقیقی حالات سے باخبر رہ سکتی ہیں اگر وہ چاہیں تو ہماری ویب سائٹ میں موجود لاپتہ افراد کے کوائف اور دیگر ضروری ثبوتوں کا استعمال بھی کرسکتے ہیں۔

ڈچ صحافی سوزانہ کاسترو جو کافی عرصہ پاکستان میں گزار چکی ہیں انہوں نے اپنی اور باقی بین الاقوامی صحافیوں اور اداروں کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ پاکستان میں موجود ہیں اور کراچی اسلام آباد اور لاہور کے علاوہ کسی دوسرے شہر جانا چاہیں تو آپ کو اجازت ناموں کی خاطر گھنٹوں انتظار کرنے باوجود بھی اکثر اوقات آپ کو ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ملتی جہاں سنگین انسانی حقوق کی پامالیاں کی جاتی ہیں۔

پروفیسر ارمان دان ویلٹ نے بلوچستان میں جاری سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں لاپتہ افراد کے مسئلہ سمیت وہاں جاری نسل کشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جو واقعات ہوتے ہیں وہ اکثر میڈیا بلیک آوٹ اور پاکستانی سنسرشپ کی وجہ سے بیرون ممالک تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔

پروگرام کے دوسرے حصے میں اوپن ڈیبیٹ کی صورت میں تمام مقررین نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور عالمی ادورں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تفصیلی بحث کی اور بلوچستان میں جاری انسانی المیہ پر سنجیدگی سے سوچنے اور مسئلے کی عالمی سطح پر حل نکالنے پر زور دیا گیا۔

ایمنسٹی اسٹوڈنٹس گروپ کی پروگرام آرگنائزر ایما گیسنڈی بھی شامل تھیں،ایما گیسنڈی نے تمام شرکاء اور مقررین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم مستقبل میں بھی اس طرح کے سیمینار اور دیگر پروگرامز کا انعقاد کرکے بلوچستان کے سنگین مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کرینگے۔