کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3518 دن مکمل

152
File Photo

میرے بھائی ظفر بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے – نادیہ بلوچ

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ 3518 دن مکمل ہوگئے۔ پنجگور سے سیاسی اور سماجی کارکنان نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجتہی کی جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے مختلف علاقوں سے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

احتجاجی کیمپ میں موجود لاپتہ ظفر بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ظفر بلوچ ولد حاجی غلام محمد بلوچ کو 24 جولائی 2015 کو رات کے تین بجے گھر سے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر اپنے ساتھ لے گئے۔

نادیہ بلوچ نے کہا کہ ظفر بلوچ کو حراست میں لیئے جانے کے وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور میں گزارش کرتی ہوں کہ میرے بھائی ظفر بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے ان افراد نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان حکومت بدانتظامی کی نئی گہرائیاں کھود رہی ہے، بلوچستان میں لاپتہ افراد اور لاشیں پھینکنے کے حوالے سے اہم شخصیات سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ چیف آف آرمی کے سامنے اٹھایا گیا ہے اور دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ یہ عمل ملک اور عوام کیلئے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات کو یقینی طور پر یہ معلوم ہوگا کہ بلوچ عوام کے خلاف ان جرائم کے پیچھے کون ہے۔ خفیہ اداروں اور فرنٹیئر کور ان ہلاکتوں میں کسی طرح بھی ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں لیکن کس نے ایسے مظالم میں ملوث ہونے کی اپنی ذمہ داری قبول کی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی ریاست ہمیشہ بلوچ پرامن جدوجہد کی نفی اس دعوے سے کرنے کی کوشش کرتا آرہا ہے کہ ان کی ایک نمائندہ اسمبلی اور کابینہ ہے جو ان کی خدمت کیلئے ہے لیکن اعلیٰ شخصیت کی مذمت نے ان نمائندوں کی بلوچ فلاح و بہبود کے لیے وابستگی کی سطح کو آشکار کردیا ہے۔ ان حلقوں کو ریاستی حمایت محض اس لیے حاصل ہے کیونکہ انہوں نے بلوچ حقوق کی مانگ ترک کردی ہے اور وہ صرف اپنے مادی مفادات کی دیکھ بھال کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ افراد جعلی ووٹوں کے ذریعے انتخابات جیتے ہیں، پولیس بیوروکریسی فوج اور عدلیہ تب تک متحرک طور پر ان کی کرپشن اور لوٹ مار میں معاونت کرتی ہیں جب تک وہ درست قسم کا شور شرابا کرے اور بلوچ حقوق سے دور رہے۔ ریاست ان حلقوں کی حفاظت کرتی ہے کیونکہ وہ ریاست کو بلوچ نمائندگی کا مطلوبہ چہرہ فراہم کرتی ہیں۔