آزادی پسند قومی ثقافت کے امین – نادر بلوچ

778

آزادی پسند

قومی ثقافت کے امین

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ثقافت قومی تشکیل کے بنیادی ستونوں میں سے ایک بنیادی ستون ہے، جغرافیہ، مشترکہ ثقافت، تاریخ مل کر ایک قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی جز ہیں جن میں سے کسی ایک کا نہ ہونا بھی قومیت پر سوال کھڑی کرتی ہے، جدید نیشنل ازم میں قومی تشکیل کا ایک اہم کردار، قومی آزادی کا تصور ہے۔ جس کے بنا قومی شناخت ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے، جو اقوام آزادی حاصل کرچکے ہیں، وہ آج بھی اپنے ثقافت کو ہی قومی اتحاد اور قوم پرستی کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ ثقافت خود قومی ، سیاسی، سماجی، معاشی سائنس کا مرکب ہے. اس میں زبان، رسم و رواج، انفرادی و اجتماعی مفادات، کاروبار، ہمسایہ اقوام، معاشروں کے ساتھ سلوک و روابط سب ملکر ثقافت کی تشکیل کرتی ہیں۔ کسی بھی روشن خیال قوم کیلئے ثقافت ترقی و تعمیر کی ضمانت ہوتی ہے، ثقافت میں شامل قوانین جو روایات، و رسم رواج پر مشتمل ہوتے ہیں تاریخی منازل طے کرکے نسل در نسل شعور و آگاہی فراہم کرتی ہیں، ثقافتی اقدار دشمن یا حملہ آور قابضین کا پہلا نشانہ بنتی ہیں۔ ثقافت کی بنیادیں ہزاروں سالہ تاریخ میں پیوست ہوتی ہیں، اس پر حملہ کرنے کا مقصد قومی تشکیل کے اس اہم ستون کو تباہ کرکے قومی شناخت کے جذبے کو مٹانا ہے۔ جو اقوام اپنے ثقافتی اقدار سے جڑی رہتی ہیں، انکی شناخت قائم رہنے کی ضمانت ہوتی ہے اور یہی جداگانہ شناخت بعد میں قومی آزادی کے مقدمے کو تاریخی بنیاد مہیاء کرتی ہے۔

قومی آزادی کی تحریک شروع کرنے کیلئے جن اصولوں کو نظریہ اور قومی مقصد سے منسلک سمجھی جاتی ہیں، ان میں تاریخی حقائق اور ان سے جڑی ثقافتی اقدار کی بنیاد پر جہد کار ذہن سازی اور تنظیم سازی کرکے نوجوانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ قول و اقرار، غم و خوشی، دوست دشمن کے ساتھ برتاو، قومی اقدار اجاگر کرنے کیلئے ثقافت کو شناختی علامت کے طور پر ظاہر کی جاتی ہے۔ اس میں مزاحمت، مزاحمتی ادب، مزاحمتی ساز و زیمل یہ تمام جزیات ثقافت کے ایک جز سے تعلق رکھتے ہیں۔ شغان بازی سے کسی کو مزاحمتی سوچ کی جانب نہیں اکسایا جاسکتا، بلکہ فکری و نظریاتی سوچ جذبات کو رخ دیکر تربیتی عمل میں آزادی پسند اقوام میں شعور اجاگر کرتی ہیں۔ مقبوضہ و استحصال کے شکار عوام جب اپنے قومی مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے شعوری جہد کا آغاز کرتی ہیں، تو سماج میں جہد اور قربانیوں کی وجہ سے تبدیلیاں نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں، اسلیئے شعور، جہد کے تیز و کمزور ہونے سے متوازی منسلک ہوتی ہے، جہد اور قربانیاں جتنی زیادہ ہوتی ہیں قومی شعور میں اتنی تیزی سے جذباتی لگاو میں اضافہ ہوتی ہے۔ جہد کار ثقافتی اقدار کو اجاگر کرنے کی کوشیش کرتے ہیں کیونکہ سماج اور قومی اقدار جو قابض قوتوں نے مسخ کی ہیں انکی دوبارہ بحالی قومی تشکیل کے حل کیلئے انتہائی ضروری ہے، جس کیلئے عوام کو شعوری طور پر تحریک سے منسک کرنا ہوتا ہے، نہیں تو تحریک صرف نظریاتی کیڈر تک منجمد ہوکر رہ جاتی ہے، جو آہستہ آہستہ ٹہرے ہوئے پانی کی طرح بدبو دار ہوکر جہد کار کی مثبت سوچ اور فکر کا گلہ گھونٹنا شروع کرتی ہے۔

بلوچ قومی تحریک کی بحالی کیلئے اکیسویں صدی کے شروع میں جہد کاروں کے ایک باعمل اور نظریاتی کیڈر نے تحریک کو عوام میں مقبول کرنے کیلئے تمام خدشات و کامیابی و ناکامیوں کا تجزیہ کرکے سر بہ کفن ہوکر میدان عمل میں سرگرم ہوئے، تحریک کی بلوچ سماج پر اثرات کا سائنسی مشاہدات اور تجربات کے ذریعے تجزیہ کرتے رہے۔ تحریک کی بدولت سیاسی کارکنوں نے نظریاتی جہد سے تعلق رکھ کر عوام اور خاص طور پر نوجوانوں میں قوم پرستی کے جذبات ابھارنے کیلئے بلوچ ثقافت و رسم و رواج کو عام کرنے کیلئے شعور اجاگر کرنا شروع کیا۔ ان کوششوں میں سب سے پہلے نوجوانوں میں زبان دوستی پیدا کی گئی جس سے کافی حد تک نوجوانوں نے بلوچ قوم کے تمام زبانوں پر عبور حاصل کرنا شروع کیا، بہت سے ساتھی اپنے سرکلز میں غیر زبان استعمال کرنے پر جرمانہ بھی لاگو کرتے تھے۔ حال احوال ، قول و اقرار کی اہمیت اجاگر کرنے کے بعد ثقافتی شعور کو قومی سطح پر انعقاد کرنے کے لیے نوجوانوں نے کمر کس لی، سیاسی کارکنوں کی جیل و بند کی صعوبتوں اور سیاسی سرکلز نے قومی شعور میں کافی اضافہ کیا، گھر گھر شعور نے ہر بلوچ مرد اور عورت، بچے بوڑھے کو قومپرستی کے اس اہم جز ثقافت کے ذریعے قوم دوستی کے اظہار کے ذریعے جذبات کے اظہار کو ادا کرنے کا موقع دیا۔

ہزاروں قربانیوں، عروج و زوال کے بعد بعض سیاسی تنظیموں، پارٹیوں و سرکلوں میں نظریاتی جہد کا فقدان نظر آرہا ہے۔ اس جنگ زدہ ماحول میں ریاستی جبر کی وجہ سے ایک پوری نسل قربان ہوچکی ہے، تو دوسری جانب سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو لائحہ عمل دینے میں ناکام ہوتی دیکھائی دے رہی ہیں۔ اسکی وجہ سے قیادت وار سائیکی کے شکار متاثرہ کارکنوں کے ہاتھ آگئی ہے۔ جو کسی بھی مثبت عمل کو ماتمی و مایوسی کی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔

بلوچ کلچر ڈے کے حوالے سے جہد کاروں کی شہادتوں اور کردار کو نظر انداز کرکے رد کیا جارہا ہے، جو لوگ کسی نہ کسی شکل میں یوم ثقافت منا رہے ہیں ان پر روایتی تنقید برائے تنقید و غیر فکری سوچ مسلط کی جارہی ہے۔ یوم ثقافت کی مخالفت کرنے والوں کو چاہیئے تھا کہ وہ اندرون و بیرون ممالک یوم ثقافت کو اسکی اصل روح کے مطابق منا کر عوام اور نوجوانوں کو مثالی طور پر رہنمائی کرتے۔ آزادی پسند تنظیمیں کلچر ڈے سے دستبردار ہو کر ریاستی قابض افواج کو ثقافتی طور پر بلوچ قوم پر حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کر رہے ہیں، بعض ریاستی پیداگیر ریاست کی سرپرستی حاصل کرنے کیلئے بلوچ کلچر کو خلط ملط پیش کرنے میں پیش پیش ہیں، جنکے سامنے کوئی متبادل پروگرام دینے میں نظریاتی کارکن مکمل ناکام ہوچکے ہیں اور اسکی وجہ صرف اور صرف اپنی قومی ذمہ داریوں سے صرف نظر ہے۔ انقلابی و سائنسی جد و جہد کا دعویٰ اب فیس بک اور سوشل میڈیا پر پرتولتی نظر آ رہی ہے، اتحاد و یکجہتی جیسی قومی تشکیل کے اہم مرحلے پر ناکامی و بیزاری کے بعد اب ثقافت و دیگر قومی عمل و قومی ذمہ داریوں سے انحراف خاموش سرنڈر کے مترادف ہے۔

قومی تحریک سے منسلک نظریاتی تنظیمیں، دانشور، شعراء، ادیب، سیاسی و سماجی جہد کار اس بات کو یقینی بنائیں کہ قومی جہد پر فردی پسند و ناپسند نہیں بلکہ قومی تشکیل کے مراحل پر نظریاتی تنظیمی فیصلوں کی بنیاد پر سماج و تحریک پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیکر مثبت تبدیلیوں کو قومی تشکیل میں مددگار سمجھ کر تحریک کو مظبوط کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔