کوئٹہ: موسلادار بارش میں لاپتہ افراد کیلئے احتجاج

194

لاپتہ افراد میں سے ایک کی رہائی اور دو کی جبری گمشدگی کا جو سلسلہ پھر سے شروع کیا گیا ہے اس کو بند کیا جائے – حمیدہ نور

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لگائے گئے احتجاجی کیمپ کو 3502 دن مکمل ہوگئے۔ پشتون تحفظ موؤمنٹ کے منظور احمد کاکڑ، نصیر احمد، مجاہد خان اورسماجی کارکن حمیدہ نور بلوچ سمیت دیگر مکتبہ فکر کے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے اظہار یکجہتی کی جبکہ 5 سال سے لاپتہ ظہور احمد لانگو، رسول بخش، غلام فاروق کے لواحقین سمیت دیگر نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرپرسن ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز انسانی حقوق کو روند کر بلوچستان پر قابض ہے اور شروع دن سے لیکر آج تک محکوم بلوچ اپنی سرزمین پر قتل ہورہا ہے۔ بلوچ آج بھی پنجاب کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے اورمیں سمجھتا ہوں یہ حیرانگی کی بات نہیں ہے کیونکہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ قابض نے ہمیشہ مقبوضہ کیساتھ ہمیشہ یہی سلوک کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ سال پہلے خضدار کے علاقے توتک میں ایک چرواہے کے نشاندہی پر اجتماعی قبر دریافت ہوئی تھی جس سے 169 سے زائد لاشیں ملی تھی جبکہ ان میں سے صرف تین افراد کی شناخت ہوسکی جو بلوچ سیاسی کارکن تھے اور انہیں پاکستانی فورسز اور ان کی سرپرستی میں چلائے جانے والے ڈیتھ اسکواڈ گروپ نے اغواء کیا تھا۔ اسی طرح پنجگور کے علاقے پروم ، تیرہ میل دشت، پشتون علاقے خانوزئی اور کراچی کے علاقے موچکہ میں ہزاروں بلوچ اجتماعی قبروں میں دفن ہیں اور اس کے علاوہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اجتماعی قبریں ہونگی لیکن ابھی تک ان اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی ہے جبکہ شناخت ہونے والے تین افراد کے گمشدگی کے محرکات سب کو معلوم ہے کہ انہیں پاکستانی فورسز نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا تھا۔

ماما قدیر نے کہا کہ توتک واقعے کا مقصد لوگوں کو آواز اٹھانے سے خوفزدہ کرنا اور لاپتہ افراد کیلئے لانگ مارچ کو سبوتاژ کرنا تھا جس سے ریاست کی بوکھلاہٹ واضح ہوتی ہے۔ آج بلوچستان کے کھونے کھونے میں بلوچ لاپتہ افراد کی لاشیں پڑی ہوتی ہے جنہیں چرند پرند اور دیگر جانور کھا جاتے ہیں یا ان میں سے متعدد لاشوں کو لاوارث قرار دیکر دفن کیا جاتا ہے۔

سماجی کارکن حمیدہ نور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان دنوں بلوچستان کے مختلف علاقوں سمیت کوئٹہ میں موسلادار بارش ہورہی ہے جبکہ ماما قدیر لاپتہ افراد کیلئے بارش اور سردی کے موسم میں اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں جس کیلئے میں انہیں سلام پیش کرتی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کا مقصد لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی ہے ۔ میں حکومتی انتظامیہ سمیت سیاستدانوں سے گزارش کرتی ہوں کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی آواز سنی جائے اور لاپتہ افراد میں سے ایک کی رہائی اور دو کی جبری گمشدگی کا جو سلسلہ پھر سے شروع کیا گیا ہے اس کو بند کیا جائے۔

حمیدہ نور نے کہا کہ نوجوان قوم کا سرمایہ ہے انہیں اس طرح زندانوں میں قید نہیں کرنا چاہیئے اور میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ ماما قدیر بلوچ کا ساتھ دے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اٹھائے۔

دریں اثناء لاپتہ ظہور احمد کے لواحقین نے ان کے حوالے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ظہور احمد لانگو ولد خیر بخش لانگو کو 29 ستمبر 2013کو قلات سے لاپتہ کیا گیا۔