انسانی حقوق کا عالمی منشور و یو این او کا رویہ -عبدالواجد بلوچ

960

انسانی حقوق کا عالمی منشور و یو این او کا رویہ

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948کو ”انسانی حقوق کا عالمی منشور“ منظور کرکے اس کا اعلانِ عام کیا۔ اگلے صفحات پر اس منشور کا مکمل متن درج ہے۔ اس تاریخی کارنامے کے بعد اسمبلی نے اپنے تمام ممبر ممالک پر زور دیا کہ وہ بھی اپنے اپنے ہاں اس کا اعلانِ عام کریں اور اس کی نشر و اشاعت میں حصہ لیں۔ مثلاً یہ کہ اسے نمایاں مقامات پر آویزاں کیا جائے۔ اور خاص طور پر اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں اسے پڑھ کر سنایا جائے اور اس کی تفصیلات واضح کی جائیں، اور اس ضمن میں کسی ملک یا علاقے کی سیاسی حیثیت کے لحاظ سے کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔

چونکہ ہر انسان کی ذاتی عزت اور حرمت اور انسانوں کے مساوی اور ناقابلِ انتقال حقوق کو تسلیم کرنا دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔

چونکہ انسانی حقوق سے لاپرواہی اور ان کی بے حرمتی اکثر ایسے وحشیانہ افعال کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے، جن سے انسانیت کے ضمیر کو سخت صدمے پہنچے ہیں اور عام انسانوں کی بلند ترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو اور خوف اور ڈر سے محفوظ رہیں، اسی قانون کے پیش نظر یہ بہت ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو قانون کی عملداری کے ذریعے محفوظ رکھا جائے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ انسان عاجز آ کر جبر اور استبداد کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور ہوں۔

اسی منشور کے مطابق انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کے واسطے حصولِ مقصد کا مشترک معیار ہو گا تاکہ ہر فرد اور معاشرے کا ہر ادارہ اس منشور کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے اور انہیں قومی اور بین الاقوامی کارروائیوں کے ذریعے ممبر ملکوں میں اور اُن قوموں میں جو ممبر ملکوں کے ماتحت ہوں، منوانے کے لئے بتدریج کوشش کر سکے۔

حتیٰ کہ دنیا کے مختلف مذاھب بھی اپنے اپنے دائرے میں اپنے صحائف و کتابوں میں انسانی حقوق کی پاسداری اور احترام پر زور دیتے ہیں.

اسلام نے اپنے کتابوں اور نبی آخرزمان حضرت محمد ﷺ کے فرمودات کے مطابق بھی انسانی حقوق کی پاسداری اور احترام پر زور دیا تھا، فتح مکہ کے بعد محمد ﷺ نے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں برباد کرنے نہیں بلکہ ایک معلم کی حیثیت سے یہاں آیا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ محمدﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ کیا جائے گا وہ خون ہوگا یعنی ناحق قتل کا فیصلہ کیا جائے گا۔

مسیحیت کے مطابق اور مسیحیت کے کتاب مقدس میں انسانی حقوق کے احترام اور زندگی کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ بائیبل میں ذکر ہے کہ زندگی خدا کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، انسانی جان خدا کے حضور بہت قیمتی ہے، اس لیئے خدا نے کائنات کی ہرایک مخلوق کو تخلیق کیا ہے اور انسانیت و انسان کو سب سے افضل بنایا ہے زبور میں ذکر ہے کہ دیکھ فرزند خدا کی طرف سے ایک عطیہ ہے۔ انصاف کا حق، تعلیم کا حق، زندگی کرنے کا حق مسیحیت میں اولیت رکھتے ہیں۔

ہندومت میں بھی انسان و انسانیت کی حفاظت پر بہت سی تاکیدیں ملیں گی جن پر بہت زور دیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی حفاظت اولیت رکھتا ہے، ہندو مت مسیحیت اور اسلام کے بعد تیسرا بڑا اور قدیم مذہب ہے، ہندومت کی کتاب وید میں جس کے معنی علم کے ہیں میں ذکر ہے کہ زندگی کو بہترین طریقے سے گزارو اور انسانیت کی حفاظت ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ رگ وید میں آیا ہے کہ اعلیٰ شعور رکھنے والوں کے نزدیک پوری دنیا ایک خاندان کی مانند ہے۔ ہندومت میں انسانی حق، خوشی کا حق وہ اہم نقاط ہیں جن پر عمل کرنے پر انتہائی زور دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ دنیا کے کئی چھوٹے مذاہب میں انسانی حقوق کی پاسداری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بڑی بڑی تاکیدیں آئی ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اس خطہِ کائنات میں اقوام متحدہ سمیت ان تمام مذاہب کے پیروکار اس جانب زور دینے میں ناکام ہوچکے ہیں کہ اس دنیا میں جہاں بھی انسانی حقوق کے خلاف مختلف ممالک کی حرکتیں و اعمال واضح ہیں انہیں روکنے کی کوشش کریں۔ پاکستان جو ایک خود کو ایک اسلامی ریاست کہتی ہے اور ان کا وجود ہندوستان سے اس بنیاد پر بنا کہ وہاں مسلمانوں کے حقوق کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستان جب ہندوستان سے الگ ہوا تو وہ پہلا ملک تھا کہ جس نظریے پر بنا تھا اسی نظریے پر پاؤں رکھ کر اپنے ہمسایہ آزاد ملک بلوچستان پر بزور قابض ہوا اور آج تک انتہاء درجے کی انسانی حقوق کی پامالیاں پاکستان کے ہاتھوں وہاں ہورہی ہیں حالانکہ اسلام کے ٹھکیدار جو مذہب اسلام کے امین سمجھے جاتے ہیں، بلوچستان کے اندر وہ ریاستی ایماء پر بلوچ قوم کی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔

حالیہ دنوں ایک ویڈیو دیکھنے کو ملا جس میں ایک نہتے بلوچ پر ریاستی فورسز کا ایک بڑا پلٹن حملہ آور ہے اور انہیں اسی لمحہ برسٹ مار کر شہید کیا جاتا ہے۔ وہ ویڈیو تو ایک واضح مثال ہے لیکن اس کے علاوہ بلوچ نسل کشی پر کئی ریاستی عمل ہیں جو پوشیدہ ہیں۔عالمی جنگ جہانی کے بعد جب اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کی پاسداری پر منشور بنائے لیکن انتہائی کرب و الم کی بات ہے کہ اسی اقوام متحدہ کا عالمی نمائندہ جب پاکستان کا دورہ کرتی ہے تو جنگ زدہ بلوچستان کا دورہ گوارا نہیں کرتے۔ چالیس ہزار سے زائد لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی کی خاطر بیٹھے ان ماؤں بزرگوں کی چیخیں انہیں سنائی نہیں دیتی۔

بلوچستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اگر اقوام متحدہ اسی طرح خاموش رہا، اگر اقوام متحدہ صرف ایک شو پیس کی طرح صرف اپنے مقاصد اور عالمی سامراجیت کے مفادات کا امین رہا تو وہ دن دور نہیں کہ اس خطے میں انسانیت کا جنازہ نکل جائے گا۔ ہمیں اقوام متحدہ اور ان کے ذیلی اداروں سے کسی بھی قسم کا کوئی توقع نہیں کہ وہ بلوچ قوم سمیت پاکستان میں تمام مظلوموں کے نسل کشی پر لب کشائی کرے گا لیکن ہمارا شور و غوغا صرف اس لئے ہے کہ اقوام متحدہ کو یہ احساس دلائیں کہ اپنے عالمی منشور جنہیں 1948وجود دیا گیا ذرا ان کے مسودوں کو اپنے الماریوں سے نکال کر ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں شاید اس سے مظلوم قوموں کی نسل کشی تھم جائے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔