بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اور رکن بلوچستان اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاکہ بلوچستان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تعلیمی پسماندگی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے ماضی میں ہمارے بزرگ بلوچ قوم پرست سیاستدانوں نے بلوچستان یونیورسٹی سمیت اہم درس گاہوں کی بنیادیں رکھی ہیں ۔
بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی کے نام پر بلوچستان کے طلباء طالبات کو بیووف بنایا جا رہا ہے تعلیمی ادارے اساتذہ لیب کی کمی کا شکار ہیں گرلز کالج ڈیرہ مراد جمالی میں سولہ سالوں سے خواتین لیکچراز فراہم نہیں کی گئی ہیں ۔
ان خیالات کااظہار بی این پی نصیرآباد کے سنیئر رہنما غلام علی بلوچ کی قیادت میں ملنے والے نمائندہ وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہاکہ جب تک اساتذہ کرام کی بھرتیاں اور تعلیمی اداروں کی اپ گریڈیشن سیاسی بنیادوں پر ہوتی رہے گی بلوچستان میں تعلیمی نظام میں بہتری آنے کے بجائے پسماندگی کا شکار ہوتے رہے گے ۔
انہوں نے کہاکہ بی این پی سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں بلوچستان کے غریب عوام کی جنگ لڑ رہی ہے عوام کو پینے کا صاف پانی تعلیم صحت کی فراہمی حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن حکومت اپنی ذمہ داریوں سے قاصر ہے ۔
رکن بلوچستان اسمبلی نے کہاکہ نصیرآباد جعفرآباد بلوچستان کے سب سے زرعی علاقے ہونے کے باوجود زرعی پانی کی قلت کا شکار ہیں لاکھوں ایکٹر زرعی اراضی آفیسران علاقے کے منتخب عوامی نمائندوں کی عدم توجہی کی وجہ سے بنجر پڑی ہوئی ہے کسان زمیندار نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ عوام اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے بی این پی کے قافلے میں شامل ہو جائیں تاکہ حکمرانوں کا یوم احتساب کیا جاسکے ۔