ہم چاہتے ہے کہ بلوچ اور پشتون مل کر بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کریں کہ وہ پاکستان سے پوچھیں کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کیوں فیئرٹرائل نہیں کیا جاتا ہے، اگر کوئی مجرم ہے تو اسے سزا دی جائے اور اگر کوئی معصوم ہے تو اسے کیوں رہا نہیں کیا جاتا ہے – پشتون تحفظ موومنٹ رہنما ثنا اعجاز
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج جاری ہے جبکہ آج بروز بدھ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماوں ثنا اعجاز، ڈاکٹر سعید عالم، لیاقت حسین زئی، ڈاکٹر مشتاق سمیت دیگر نے کیمپ کا دورہ کیا اور لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقعے پر پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ثنا اعجاز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہہ ہمارا یہاں آنے کا مقصد لاپتہ افراد کے لواحقین سے یکجہتی کرنا ہے لیکن ہم کیوں یکجہتی کررہے ہیں کیونکہ جس طرح بلوچ لاپتہ افراد ہے اسی طرح ہمارے ہزاروں پشتون لاپتہ افراد ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان خود کو ایک اسلامی جمہوری ملک کہتا ہے لیکن یہاں پر انسانی حقوق یا انسانیت کے حوالے سے کچھ بھی وجود نہیں رکھتا ہے۔ یہاں بڑے ملکوں کو اپنے اچھے شہروں اسلام آباد وغیرہ کی تصاویر دکھا کر تسلیاں دی جاتی ہے اور جھوٹی انٹرویوں کرواکر انہیں بتایا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں انسانی حقوق کی بالادستی ہے اور یہاں وفاقی طرز حکومت ہے اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہورہی جبکہ بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں کے ساتھ لاپتہ افراد جیسے واقعات ہورہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح بلوچ بیٹیاں اپنے پیاروں کا انتظار کرتی ہے بلکل اسی طرح خیبرپختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات میں لوگ اپنے لاپتہ پیاروں کا انتظار کرتے ہیں اور انہیں بھی اسی طرح نہیں معلوم کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہے یا نہیں، یہ اس ریاست کے اعمال کی حقیقت ہے کہ قوموں کیساتھ اس کا سلوک انسانیت کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔
ثنا اعجاز نے مزید کہا کہ پاکستان نے بچوں اور عورتوں کے حقوق کے ڈکریشن سمیت دیگر حقوق کے حوالے سے دستخط کیے ہیں لیکن آج تک کوئی بلوچ عورتوں کے پاس نہیں آیا ہے کہ ان سے پوچھے آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے، آپ کا گھر کیسے چل رہا ہے یا آپ کے شوہر، بیٹے اور بھائی کو کس جرم میں اٹھاکر لیجایا گیا ہے۔
انہوں نے احتجاجی کیمپ کو ریاست کے اعمال کی گندی شکل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں دہشت گردی کے مقدمات حقوق کیلئے پرامن احتجاج کرنیوالوں پر لگاکر ان کو جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہے کہ بلوچ اور پشتون مل کر بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کریں کہ وہ پاکستان سے پوچھیں کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کیوں فیئرٹرائل نہیں کیا جاتا ہے، اگر کوئی مجرم ہے تو اسے سزا دی جائے اور اگر کوئی معصوم ہے تو اسے کیوں رہا نہیں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو آگ یہاں بلوچستان میں لگی ہے وہی آگ خیبرپختونخواہ میں بھی لگی ہے اور ہم لاپتہ افراد کے درد کو محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں بھی ہر گھر سے لوگ جبری طور پر لاپتہ ہے لہٰذا ہم پی ٹی ایم کی طرف سے اور بحیثیت خواتین انسانی حقوق کی کارکن بلوچ لاپتہ افراد کے تحریک کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین جہاں بھی ہونگے پشتون تحفظ موومنٹ ان کا ساتھ دے گی۔
پی ٹی ایم کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر سعید عالم محسود نے کہا کہ جو ہمیں دربدر کررہا ہے، ہمیں مسخ شدہ لاشیں دے رہا ہے جس کی وجہ سے گھروں سے باہر یہاں ہمارے بہنیں، بیٹیاں احتجاج پر بیٹھی ہوئی ہے اس عمل کے پیچھے ایک ہے، جو ہمارے ساتھ کررہا ہے وہی آپ کے ساتھ کررہا ہے۔
انہوں نے کہا آپ کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی لیکن اگر ہم یہ توقع کرے کہ یہاں کی عدالت، پارلیمنٹ، میڈیا اور دیگر ادارے ہماری مدد کرینگے ایسا نہیں ہوگا لہٰذا ہم ملکر اقوام متحدہ سے گزارش کرے کہ عالمی ادارے آئے اور لاپتہ افراد، مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔