اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں میانمار میں شدت اختیار کرتے ہوئے مہاجرین کے تنازع پر بین الاقوامی برادری تقسیم نظر آئی اور چین نے فوجی کریک ڈاؤن کے حق میں آواز اٹھائی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکا میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اس کریک ڈاؤن کو ’نسل پرستی‘ قرار دیتے ہوئے سخت مذمت کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اب تک 3 لاکھ 70 ہزار روہنگیا مسلمان نقل مکانی کرچکے ہیں۔
چین کی جانب سے میانمار کے حق میں مداخلت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم پر عالمی سرزنش سے بچانے کے لیے کی گئی۔
بیجنگ نے جنوب مشرقی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے آنگ سان سوچی کی سول حکومت کے قیام کے بعد میانمار سے تجارتی، توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں مضبوط تعلقات استوار کیے تھے۔
میانمار کی مغربی ریاست رکھائن میں روہنگیا ’عسکریت پسندوں‘ کی جانب سے 25 اگست کو پولیس پوسٹس پر حملوں کے بعد فوج کی جانب سے جوابی کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا، جس نے دنیا کی تیسری مسلم اقلیتی آبادی کو اپنی جانیں بچانے کے لیے نقل مکانی پر مجبور کردیا تھا۔
ظلم کے مارے روہنگیا مسلمانوں نے میانمار کی فوج اور بدھ متوں کے ہاتھوں گھر نذر آتش کیے جانے کے بعد نقل مکانی شروع کی تھی۔
تاہم رکھائن میں فوجی کریک ڈاؤن کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جاسکی، کیونکہ غیر ملکی صحافیوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں۔
میانمار کی حکومت کسی بھی طرح کے تشدد سے انکار کرتے ہوئے ہزاروں گاؤں کو آگ لگانے کا الزام عسکریت پسندوں پر عائد کرتی ہے جن میں سے کئی روہنگیا کے افراد بھی شامل ہیں۔
تاہم رواں ہفتے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ زید رعد الحسین کی جانب سے پرتشدد واقعات کو ’نسل پرستی کی درسی کتاب کی مثال‘ قرار دیئے جانے کے بعد بین الاقوامی برادری کی طرف سے میانمار پر روہنگیا مسلمانوں پر تشدد روکنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا تھا۔
امریکا نے بھی حالات کو خطرناک قرار دیا جبکہ سیکیورٹی کونسل نے بدھ کو تنازع پر اجلاس طلب کیا تھا۔