رواں کاروان جنرل – شاھبیگ بلوچ

194

رواں کاروان جنرل

شاھبیگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ میں وہی لوگ ہی فتحیاب یا سرخرو ہوئے ہیں یا ہوتے ہیں جو اپنے نظریات اور سوچ پر انتہاء کی حد تک ایمان رکھتے ہوں اور کسی بھی طرح قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے، جس طرح سقراط ہزاروں سال پہلے اپنے نظریات کی تحفظ کرتے ہوئے زہر کا پیالہ پی کر انسانی تاریخ میں تا قیامت امر ہوگیا۔ ٹھیک اسی طرح نواسہ پیغمبر حضرت امام حسین بھی کربلا کے میدان میں اپنے فکر پر قائم رہے اور ظالم کے سامنے سر جھکانے کے بجائے جام شہادت نوش کرکے انسانیت کے لئے عظیم مثال بن گئے۔ یا پھر ماضی قریب میں جب ہندوستان میں برطانوی سامراج کیخلاف جنگ لڑتے ہوئے چندر شیکھر آزاد کی بندوق میں آخری گولی بچ جاتی ہے تو خود کو دشمن کے حوالے کرنے کے بجائے سرزمین پر خود کو فدا کرکے دنیائے انقلاب کیلئے عظیم کردار بن جاتے ہیں اور ان کے ساتھی بھگت سنگھ، سکدیو اور راج گُرو انگریزوں کی غلامی پر اس پھانسی کے پھندے کو فوقیت دیتے ہیں، جو بھری جوانی میں انکے موت کا مؤجب بنتی ہے کیونکہ وہ اپنے سوچ پر اس قدر ایمان رکھتے ہیں کہ زندگی میں یا مردوں کی طرح زندہ رہنے کی کوئی اہمیت نہیں بچ جاتی۔

اگر ہم لاطینی امریکہ کے عظیم انقلابی گوریلہ لیڈر چی گویرا کی مثال لیں، وہ چاہتے تو کیوبا کی آزادی کے بعد وہاں رہ کر ایک انقلابی رہنماء کی زندگی گذار سکتے تھے اور فیڈل کاسترو کی حکومت میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے۔ مگر انکے آدرش اور نظریات کسی عہدے یا وزارت یا چند ذاتی مراعات حاصل کرنا نہیں تھے بلکہ وہ دنیا میں موجود تمام سامراجی قوتوں کیخلاف آزادی کی جنگ جاری رکھے ہوئے تھا اور وہی سوچ اور نظریہ ہی انکی شہادت کی وجہ بنی لیکن کل کے دن چی گیویرا کو قتل کرکے جو لوگ خوشی سے بغلیں بجاتے تھے آج انہی ممالک میں لوگ چی کو اپنا اُستاد ، رہنما اور روحانی کمانڈر سمجھتے ہیں اور انکی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر دشمن سے نبردآزما ہیں۔ ان تمام تاریخی شخصیات اور ان جیسے دیگر سینکڑوں کرداروں جو اپنے نظریات کو اپنا ایمان سمجھتے تھے، اپنے شہادت اور قربانی کے بعد عالم انسان کیلئے رہتی دنیا تک ایک مثال بن گئے ہیں۔ کیونکہ ان تمام ہستیوں کا مقصد جینا نہیں تھا بلکہ زندہ رہنا تھا اور آج وہ شعور، سوچ و تعلیمات کی صورت میں ہمارے درمیان زندہ ہیں۔

بلوچ انقلابی تاریخ بھی اس طرح کے انقلابیوں اور نظریات پر قربان ہونے والے شہداء اور حقیقی شعوری فرزندوں سے بھری پڑی ہے۔ جو دھرتی ماں کی آزادی اور بلوچ قوم کی خوشحالی کے نظریہ پر کاربند ہوکر کسی بھی طرح کی قربانی دینے یا کسی بھی سخت حالت کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہما وقت تیار ہیں یا رہے ہیں۔ ان انقلابی ساتھیوں اور شہیدوں میں ایک نام، ایک کردار، ایک شخصیت، ایک تاریخی اُستاد اور شفیق رہبر جنرل اسلم بلوچ بھی ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی سرزمین اور بلوچ قوم کو بنالیاتھا، وہ ایک ایسے پختہ سوچ و نظریئے کے مالک تھے کہ انہوں نے اپنے نظریات پر نہ صرف خود عمل پیرا ہوکر کئی بار دشمن سے دو بدو مقابلوں میں انتہائی زخمی ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے لخت جگر اپنے فرزند پھلیں شہید ریحان جان کو قومی آزادی کی جنگ میں بلوچ قومی اجتماعی مفادات کے تحفظ کی خاطر قربان کردیا۔

جنرل نہ صرف اپنے نظریات کا پرچار کرتے تھے بلکہ وہ ان نظریات کو جیتے تھے اور انہوں نے رخصتی بھی ویسی پائی جیسا وہ چاہتے تھے کہ دشمن کے ہاتھوں شہید ہونا بجائے بستر پر موت کے۔ جنرل آج جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں آج ہمیں شاید انکی آواز یا باتوں کا کافی بے چینی سے اِنتظار ہو یا ان کے انٹرویوز کا یا یوں کہیں انکی سربراہی میں ہونے والی بہترین کاروائیوں کا۔ لیکن ان یادوں خواہشوں اور ہمارے امنگوں کو پورا کرنے کی خاطر آج بھی جنرل کے ساتھی انکے سپاہی دشمن کیخلاف برسرپیکار ہیں اور دشمن پر حملہ آور ہوکر اسکی نیندیں حرام کررہے ہیں۔

جنرل کے نظریات، سوچ، شعور و تعلیمات اس قدر اثر مند اور مستحکم تھے کے انکی شہادت کے بعد بھی ریاست ان سے کافی خوفزدہ ہے اور اپنی شکست خوردگی کو چھپانے کی خاطر بے گناہ نہتے لوگوں کو اغواء کرکے پھر انہیں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بی ایل اے (جس کے سر براہ جنرل اسلم بلوچ تھے) سے منسلک کرنے کی کوشش کررہی ہے اور ان پر کراچی میں چائنیز ایمبیسی پر حملے میں سہولت کاری کرنے جیسے الزامات لگا کر دنیا اور اپنے عوام سمیت چائنا اور سعودی عرب کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ کیونکہ جنرل کے سپاہی آج بھی بلوچستان کے ہر محاذ پر موجود ہیں اور دیدہ دلیری سے دشمن پر حملہ آور ہورہے ہیں یقیناً چائنا سمیت دیگر بیرونی ممالک جو سی پیک سمیت دیگر استحصالی منصوبوں میں شامل ہیں اور ان استحصالی منصوبوں کو دوام بخشنے کا سبب بن رہے ہیں انہیں بھی جنرل کے سپاہی کسی طور پر بلوچ سرزمین پر کامیاب ہونے نہیں دینگے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔