جھوٹی پریس کانفرنس – زیران بلوچ

296

جھوٹی پریس کانفرنس

زیران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

۲۹ اور ۳۰ نومبر ۲۰۱۸ کی درمیانی شب 3 بجے کو
حسنین بلوچ ،عمر چودہ سال، اپنے بھائی “جیئند بلوچ “ جو کے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری ہیں اور والد محترم عبدالقیوم کے ساتھ اُن کے گھر محلہ شیخ حسینی ہدہ کوئٹہ “شال“ بلوچستان کے دارالحکومت سے سیکورٹی اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا۔ اِن کی جبری گُمشدگی کے خلاف اِن کے بہن اور مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والوں نے “وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز “کی سربراہی میں دھرنا دیا اور احتجاج بھی کیا تھا، بی بی سی اردو نے ایک رپورٹ بھی بنائی تھی جو کی دسمبر کو شائع ہوئی تھی اور ۵ دن بعد یعنی کے چار دسمبر ۲۱۰۸ کو حسنین بلوچ کے والد محترم عبدالقیوم کو رہا کیا گیا تھا اور گیارہ جنوری دوہزار اُنّیس کو کراچی پولیس کے آئی جی “امیر شیخ “ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ کہا تھا کے حسنین بلوچ کو باقی چار بلوچوں کے ساتھ جن کے نام یہ ظاہر کئے گئے تھے “عبدالطیف ولد عبدالرشید، ھاشم علی ولد مہر دل، اسلم مغیری ولد محمد عالم،عارف عرف نادر “، کو بلدیہ ٹاون میں آج چھاپہ مار کے گرفتار کیا گیا ہے، جو “چینی سفارتخانے” پرحملے میں سہولت کار اور ماسٹر مائینڈ تھے۔

اب سوال یہ بنتا ہے کہ تیس نومبر کو جبری طور پر لاپتہ ہونے والا گیارہ جنوری کو کیسے گرفتار ہوا؟ اور جیئند بلوچ “حسنین بلوچ کے بھائی کہاں ہیں؟ کیا اُسے بھی کسی روز اپنے ہی ٹارچر سیلوں سے گرفتار کرلیا جائے گا؟یا بعد میں سہولت کار یا کسی حملے کا ماسٹر مائنڈ ظاہر کرکے گرفتار کردیا جائے گا؟ یا خدانخواستہ ٹارچر سیل میں شہید کردیا جائے گا؟

یہ آئی جی صاحب کو پتہ تھا کے یہ جھوٹی پریس کانفرنس ہے، اور صحافی حضرات کو بھی اچھی طرح پتہ تھا یہ آئی جی صاحب جھوٹ کسی اور کے کہنے پہ بول رہے ہیں اور عوام کو بیوقوف بنا نے کے لیئے ہے۔ بلوچ اور دنیا کو پتہ ہے یہ جھوٹ کتنا بولتے ہیں۔

تربت میں جب “ایف ڈبلیو او” کے ورکروں پہ حملہ ہوا تھا، جس میں بیس کے قریب نیم فوجی اہلکار مار گئے تھے تو اُس حملے کے بعد تربت کے قریب گیبُن میں خلائی مخلوق والوں نے ایک حملے کا ڈرامہ رچایا تھا اور اُس جھوٹی اور خود ساختہ حملے میں اپنی ٹارچر سیلوں سے ۵ معصوم بلوچوں کو نکال کر شہید کیا تھا، اُن میں سے ایک حیات بیوس تھا جو کے جسمانی طور پر معزور تھا اور وہیل چیئر کے سہارے چلتا تھا، اور دوسرا شہید رسول جان تھا جو کے بی اے کا اسٹوڈنٹ اور “بی ایس او آزاد” تربت زون کے سیکریٹری جنرل تھے اور اُس کو ۷جنوری دوہزار چودہ کو سنگانی سر تربت سے جبری طور لاپتہ کیا گیا تھا۔ تیسرا ،دین محمد بگٹی جو کے کوئٹہ کے علاقے دشت میں ایک ٹیچر تھا، جو دوہزار بارہ کو جبری طور لاپتہ ہوا تھا، چوتھا ،اصغر بلو چ بی آر پی کا پولیٹیکل ایکٹوسٹ تھا، دو دسمبر دوہزار تیرہ کو جبری طور لاپتہ کیا گیا تھا، اور پانچواں، یحیٰی بلوچ بائیس دسمبر دوہزار چودہ کو گوادر زیروپوائنٹ سے جبری طور پر لاپتہ ہوئے تھے۔

اِن پانچ مغویوں کو اپنے ٹارچر سیل سے نکال ر شہید کیا گیا اور بعدمیں جھوٹی پریس کانفرنس کرکے میڈیا میں یہ جھوٹ پھیلایا کے یہ دہشت گرد، حملے میں مارگئے تھے۔ ایسے ہزاروں واقعات ہوئے اور ہونگے کیونکہ ان کے ٹارچر سیل معصوم جبری طور پر لاپتہ ہونے والے بلوچوں سے بھری پڑی ہیں۔

بلوچستان میں یہ “خلائی مخلوق “ جھوٹی ، مکار، قاتل ، دہشت گرداور قابض کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کئی بے گناہوں کو اِن خلائی مخلوق والوں نے جھوٹی ایف آئی آروں میں گرفتار کیا، کئی معصوم لوگوں کو قتل کرکے بعد میں مسخ شدہ لاش بنا کے پھینکا تھا، کئی کو اجتماعی قبروں میں دفنایا تھا، کتنوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا تھا، کتنے بلوچ اب بھی اِن کی ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں، یہ ظلم و جبر کا سلسلہ آج تک جاری ہے، تب تک جاری رہے گا جب تک بلوچ غلام اور محکوم رہے گا۔