نیا سال 2019 اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر۔ کمال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہم بلوچ جنوبی ایشاء کے ایک ایسے خطے میں سرزمین کامالک ہیں، جسکی اہمیت اور افادیت سے دنیا کا کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کر سکتا ہے۔ اس خطے کو دنیا میں بلوچستان کے نام سے پکارا اور جانا جاتا ہے۔ جب بلوچستان کا ذکر ہو تا ہے تو عجیب سی کفیت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس کے مٹی کے ساتھ خون کا رشتہ ہے اور اس بارے میں ہر وقت فکر مند ہو نا پڑتاہے۔ یہاں جو بھی تبدیلی رونما ہوتی ہے اس کے اثرات بلواسطہ یا بلا واسطہ ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دنیا میں جو تبدیلی رونما ہوتی ہے، اسکی اہمیت کو سمجھنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ لوگ ترقی کے آخری حدوں کوچُھو رہی ہیں اور چاند پر پہنچ چکے ہیں۔ ہم جیسے پسے ہوئے لوگوں کیلئے دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ دور کی بات، ہم اس جدید دور میں بھی پاکستان جیسے دہشت گرد ملک کے چُنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ گذشتہ 70سال سے زائد عرصہ ہم نے پاکستان کے جبر کے سائے میں گذارے ہیں۔ اس پوزیشن میں کیا ہم دنیا کا مقابلے کر سکتے ہیں؟ جی! نہیں کر سکتے ہیں۔۔ کیونکہ ہم کوئی کام اپنے اختیار میں رہ کر نہیں کر سکتے ہیں۔ ہاں ظلم کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں۔ ہم قدیم دور میں جدید تہذیب اور ثقافت کے مالک رہے ہیں جو بلوچستان سے دریافت شدہ آثار قدیمہ سے ثابت ہو چکی ہے۔
میں نے بلوچستان کی صورت حال اور انسانی حقوق پر ایک آرٹیکل میں کہا تھا کہ دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے کہ آج دنیامیں ایسے ممالک موجود ہیں جو اپنے روزہ مرہ کی زندگی کے کا م اپنے بنائے ہوئے روبوٹ سے کرا رہے ہیں اور خود مزید تحقیقات میں مصروف ہیں، تو ذہن میں ایک سوال جنم لیتی ہے کہ شاید اب غلاموں کی کمی ہو گی، کیو نکہ انکی جگہ روبوٹ کام کر رہے ہیں۔ جب غلاموں کا ذکر ہو تا ہے تو فوراً افر یقہ کا نام آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ مگر ایسا نہیں۔۔۔ آج جدید دور میں بہت سے ممالک ہیں جو قومو ں کو جسمانی اور ذہنی غلام بنا رکھے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ ایسے ریاست بھی موجود ہیں، جنہوں نے جبر سے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس کی مثال لینے کیلئے دور نہیں بلکہ پاکستان پر نظر دہرانے کی ضرورت ہے، جس نے بلوچ، سندھی اور پشتون کو بندوق کے نوک پر غلام رکھا ہوا ہے۔ پاکستانی آرمی نے بلوچستان پر 27مارچ 1948کو چڑھائی کی اور آج تک حکمرانی کر رہی ہے۔
اس لئے آج میں کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں، کہ ہمیں خواب خرگوش سے جاگنا چایئے۔ جدوجہد کی راہ اپنانا ہوگا۔ دنیا کیلئے یہ ضرور خو شی کی بات ہے جو آزادی کے ساتھ پُر آسائش زندگی گزار رہے ہیں اور نئے سال کو نئی خوشیوں کے ساتھ منانے کی جستجو میں ہیں۔ لیکن ہم کس طرح زندہ ہیں؟ جہاں ہمیں انسانی زندگی کی بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں ہیں۔ ہم سانس ضرور لیتے ہیں اور زندہ تصور کیئے جاتے ہیں مگر زندہ انسانوں میں شمار نہیں کیئے جاتے۔ اگر شمار ہوتے اور ہمیں انسانی حقوق ملتے تو آج ہماری حالت مختلف ہوتی۔ ہم بھی نئے دریافت اور ایجادوں کے بارے میں بحث مباحثہ کررہے ہوتے۔
2019نیا سال ہے۔ ہم کیا امید کر یں، اس سال کے حوالے سے؟ کم از کم میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہمیں اس دنیا سے کو ئی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ ہم ہمسایہ ممالک کو دیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے بلوچوں کی کچھ مدد کی ہے؟ اگر کی ہوتی تو آج بلوچوں کی نسل کشی نہیں ہو تی۔ جب تک بلوچ خود کو انسانوں کے متوازی لانے کی جد و جہد نہیں کرتا اور اپنی بقا کی جدوجہد میں شامل نہیں ہوتا ہے تو یہ ممکن نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ہم کس پیمانے پر آکر انسان تصور کئے جائیں گے۔ میری سوچ اور علم کے مطابق سب سے پہلے ہم اپنی شاخت بحال کریں۔ دنیا میں لوگ آپ کو پہلے ایک قوم کی حیثیت سے پہچانیں۔ جب تک کسی قوم کے واک و اختیار اُس کے اختیار میں نہیں ہونگے، وہ قوم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا ہے۔ اس متعلق کو ئی قوم دوسرے کے حال پر ترس نہیں کھاتا۔
حال ہی میں بی بی سی کا ایک رپورٹ نظر سے گذرا، نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے امریکہ اور چائنا کے کچھ پروفیسر نئی دریافت شدہ چیزوں کے بارے میں ریسرچ کر رہے تھے تو انکو ایک دوسرے ملک نے گرفتار کیا۔ ایک دوسرے پر چوری کا الزام بھی لگایا گیا۔ یوں ایک ملک اپنی دریافت کردہ چیزوں پر دوسروں کو رسائی نہیں دیتی تو ہمیں جدید ٹیکنالوجی تک کون رسائی دے گا؟ ہمیں تو ایک کمپیوٹر چلانے کیلئے بجلی کی سہولت میسر نہیں۔ ۔ ۔ جب تک ہم اپنی مرضی کے مالک بن کر ایک خود مختار ریاست کے مالک نہیں ہونگے، اُس وقت تک نہ ہماری کوئی شناخت ہوگی اور نہ ہم ترقی کر سکیں گے۔ آج پاکستان ترقی کے نام پر جن منصوبوں کو بلوچستان میں پھیلا رہا ہے، وہ ہمارے لیئے بلکہ پاکستان کی مفادات کیلئے ہیں کیونکہ کوئی کسی اور کو ترقی نہیں دیتا۔
کیا ہم اب2019میں بھی پاکستان سے کچھ تو قع رکھیں؟ نہیں۔۔ ہمیں پاکستان سےمزید غلام رکھے جانے کی امید رکھنا چاہیئے۔ جبری غلام۔۔۔ کیونکہ اس جدید دور میں قومیں اپنے قسمت کا فیصلہ خود کرتی ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک غیر فطری اور ایک غیر مہذب ریاست ہے تو ہمیں غلام رکھنا بھی پاکستان کے قانون میں جائز ہی ہے۔ ہم دور نہ جائیں، اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ کا مثال لیں۔۔۔ اسکاٹ لینڈ کا برطانیہ سے آزادی و اخراج ہو یا خود برطانیہ کا یورپی یونین سے علیٰحدگی، ہم نے عوامی رائے کا احترام دیکھا۔ نیا سال جدوجہد میں تیزی لانے کے عہد کا سال ہونا چاہیئے۔ پاکستان سے جلد آزادی ایک لازمی امر بن چکا ہے۔ بصورت دیگر ہم لاشیں اُٹھاتے رہیں گے اور ہمارا گمشدہ یا لاپتہ ہونا اسی طرح جاری رہے گا۔ جہاں پاکستان ہمارے لئے ترقی کی باتیں رٹ رہا ہے وہاں ہمیں اسکول اور ہسپتال یعنی تعلیم اور علاج کی سہولتیں میسر نہیں۔ بلوچستان میں نا خواندگی کا شرح نچلی لکیروں کو چُھھو رہی ہے۔ چھو ٹی سی بیماری سے ہم موت کے منہ چلے جاتے ہیں۔ اس دور میں بھی ملیریا اور ٹائیفائیڈ کی تشخیص کا کوئی نظام بلوچستان میں موجود نہیں (سوائے چند شہری ہسپتالوں میں)۔ اسی طرح 2019میں ہم نے ایک آزاد و خوشحال زندگی گذارنے کیلئے جدوجہد کی راہ کا انتخاب نہیں کیا تو اس دشوار گزار زندگی میں مزید دشواریاں سامنے آئیں گی۔ کو ئی بھی آپ کی مد د کیلئے آگے نہیں آئے گا۔ ہما ری بقا ایک آزاد اور خو شحال وطن میں مضمر ہے۔
2018کا ذکر کریں تو یہ سال بھی غلامی کے سالوں میں ایک اضافہ ہے۔ 2018کے شروع سے پاکستانی فو ج نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خونی آپر یشنوں میں تیزی لائی جو 2018کے اختتام تک بلا ناغہ جاری رہا۔ کئی گھروں کو اُجاڑ دیا گیا، لوگوں کے پیارے عقوبت خانوں میں بند کیئے گئے اور اذیتیں سہتے رہے۔ پاکستان کے انتہا پسندانہ پالیسی برقرار رہیں، جو مذہبی انتہا پسند بنانے کی فیکٹری ہے۔ انہی کی مدد سے مغربی بلوچستان اور افغانستان میں بلوچ فر زندوں کا لہو بہایا گیا۔ بلوچ نسل کشی میں پاکستانی فوج اپنی پوری طاقت کے ساتھ برسر پیکا ر رہا اور بلوچوں نے دفاعی پوزیشن اختیار کی جو شاید کافی نہیں ہے۔ ۔۔ہمیں غور و فکر کر نا ہو گا۔
کہتے ہیں2018میں پاکستان کے سیاست میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان جس دن وجود میں آیا اُس دن سے لے کر آج تک اُس کو چلانے والے ایک ہی رہے ہیں۔ اب بھی وہی پالیسی برقرار ہیں۔ انکی ڈوری دوسروں کے پاس رہاہے۔ یہ سلسلہ آج بھی من وعن اُسی طرح چل رہا ہے۔ المختصر پاکستانی سیاست میں تبدیلی سے ہمیں کو ئی فرق نہیں پڑتا ہے کیو نکہ بلوچستان کو انہوں نے اپنا کالونی بنایا ہوا ہے۔ کالونی کے ساتھ کس طرح رویہ اپنایا جاتا ہے اس سے ہم باخبر ہیں لیکن کچھ لوگ آنکھیں بند کرکے نہیں سمجھ رہے ہیں۔ آج میگا پرو جیکٹس کی بات ہوتی ہے۔ اس بارے میں نام نہاد بلوچستان حکومت خود تسلیم کر چکی ہے کہ اس سے ہمیں صر ف ایک پرائمری اسکول ملا ہے، جو سربندر میں ہے۔ اس کے علا وہ ہمیں لاکھوں لوگوں کا بے گھر ہونا، ہجرت، ہماری زمینوں پر فوجی قبضہ کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔
2019میں میں کم از کم مایو س نہیں رہتا ہوں۔ قربانیاں جد وجہد کا حصہ ہیں۔ غلامی کے خلاف قربان ہو نے والے آزاد تصور کی جاتی ہیں۔ قابض اور آقا ظلم کرتے رہتے ہیں مگر شکست ظلم اور ناکامی ظالم کا ہوگا۔ میں مسلسل جد وجہد مپر یقین رکھتا ہوں۔ بلو چ اپنی کامیابی کی جانب گامزن ہیں اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی بربر یت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کیلئے ہمیں ذہنی، جسمانی اور فکری حوالے سے تیار رہنا چاہیئے۔
ہماری آزادی پسند پارٹیوں کو اپنے نفع و نقصان کے بارے میں سوچنا ہو گا اور اپنی پالیسوں میں تبدیلی لانے کیلئے اداروں کو فعال کرکے ایک دوسرے پر اعتماد و بھر وسے کےلیئے تیار ہونا پڑے گا اور یکجہتی کی فضا تخلیق کرنی پڑے گی۔ اگر بے اعتمادی کی فضا اسی طرح برقرار رہی تو یہ ایک قوم کیلئے نیک شگون نہیں۔
بلوچ قوم پرست تنظیموں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عوام کو سڑکوں پر لانا چاہیئے۔ عوام طاقت کا سر چشمہ ہیں، اس طاقت کو استعمال کرنا ہو گا۔ یہ دنیا کی توجہ حاصل کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ اس سے پہلے ہم میں جو کمی موجود ہے، اُس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر آنے والے دن چیلنج کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ ان کا مقابلہ کرنا ہو گا یہی جد وجہد میں کامیابی کا ضامن ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔