جنرل اسلم ایک قومی لیڈر
تحریر۔ لیاقت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان ابھی بہانہ چاہتا ہے کہ میں بلوچ مزاحمت کاروں اور انکی مدد کردہ ملکوں کی پتہ لگا سکوں، لیکن ہر وقت ناکام ہوتا ہے۔ اس وقت ایک ایسے نازک دور میں ایک بلوچ قومی لیڈر کا کندھار میں شہادت ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے، بلوچ تحریک میں انسانی بحران اور کمزوری بہت ہیں لیکن جہاں تک آج بلوچ قومی تحریک ایک ایسی صورت میں چل رہی ہے، اسے ایک کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت افغانستان اپنی جنگی اور معاشی حالتوں کی وجہ سے دنیا میں بہت پیچھے رہ چکا ہے لیکن اپنی اور بلوچ کی پرانی دوستی اور یکجہتی کو کبھی بھولا نہیں ہے۔ اس دور میں بلوچوں کی کامیابی پاکستان کی بربادی سمجھا جاتا ہے۔
اس وقت اگر امریکہ اپنی سات ہزار فوج افغانستان سے نکال رہا ہے، کیا طالبان کے قوت سے اسی طرح افغان قوم کی نسل کشی ایک مسلسل عمل رہیگی؟ اگر طالبان اس سمجھوتے پر عمل کریں، تو پاکستان چین سے نہیں بیٹھے گا اور ویسے ہی وہ افغانستان کی ترقی اور پیش رفت نہیں چاہتا.
ابھی اگر سیاسی حوالے سے دیکھا جائے، استاد اسلم بلوچ اور انکی شہادت کی خبر میں مانتا ہوں ہماری لیئے ایک بربادی ہے کیونکہ اس وقت ہمیں استاد جیسا رہبر کبھی مل نہیں سکتا، بلوچ تحریک میں اور بھی قابل لیڈر ہیں لیکن ایسا نہیں جیسا استاد تھا۔ سیاسی حوالے سے ابھی یہ مسئلہ کچھ توجہ دینے کے قابل ضرور ہے، دیکھیں افغانستان میں افغان طالبان کے بیان کے مطابق یہ حملہ انکی طرف سے نہیں ہوا اور یہاں افغان قوم بلوچ قوم کے ساتھ یکجہتی کر رہی ہے، تو اس حملے میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا سو پرسنٹ یقین ہے۔ یہاں افغان قوم کی نسل کشی میں آئی ایس آئی ملوث ہے، افغان قوم خود بھی یہ جانتا ہے کہ انکے وسائل، مالی اور قومی بقاء کو تباہ کرنے میں ایک یاتھ آئی ایس آئی کا ہے۔
جنگ ساری انسانی ہستی کو مٹانے کا ڈریعہ ہے، مگر ان جنگوں کے بدولت آج دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے، جنگ اپنی بقاء کیلئے اور دوسرے انسانوں کو تباہ کرنا دہشتگردی ہے، جب آپ جنگ کرتے ہو انسانیت کے بنیاد پر یعنی اپنے دشمن کو مارتے ہو لیکن وحشت ناک طریقے سے نہیں اور اپنے لوگوں کو بدلے میں اٹھا کر اور خود میں انسانیت کے دبے ہوئے ضمیر کو زندہ رکھنا ایک حقیقی انسان کی نشانی ہے۔
استاد اسلم کو بہادری، جرت اور اسکے تربیت یافتہ انقلابی ساتھیوں کو سلام کرتا ہوں، جنہوں نے قومی جدوجہد میں اپنے راہ کو مستقل بنا دیا اور دشمن کو شکست دینے کیلئے جلد بازی نہیں کی، خود کی اور ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، ہر مقام پر دشمن کو منہ توڑ شکست دیا، استاد کی بنائی ہوئی اور بتائی ہوئی راہیں، راہ مشعل بن گئے ہیں۔
استاد نے ہر وقت تیاری کے ساتھ لڑائی لڑی تھی اور ہر وقت تیاری کے ساتھ لڑتے تھے، بنا تیاری کے وہ جنگ کو خود کی شکست سمجھتے تھے۔ شہید استاد اپنی ساتھیوں کی تربیت خود اس طرح کرتے تھے کی وہ کبھی سخت حالات کا سامنا کریں تو اس سے کنارہ کش نہیں ہوں۔
بلوچ قوم کیلئے ایک مثبت قدم اس وقت رکھی گئی، جب اتحاد ہوا اور اسکے بعد استاد نے مضبوطی کے ساتھ خود کو مادروطن کا ایک سپوت ثابت کیا کیونکہ وہ ایک ایماندار اور حقیقت پرست بندہ تھا، انکی نظر میں بلوچستان کی آزادی، اتحاد سے ہوسکتی ہے اور اگر اتحاد نہ ہو تو ادھر خود کو ٹوکتے رہتے اور ہمارا دشمن بیٹھ کر خوش ہوتا۔
بلوچ قوم کی زندگی استاد کی زندگی تھی، چین استاد کی ہر حرکت سے بے حد خوفزدہ تھا کیونکہ فدائین مجید برگیڈ کا نشانہ سی پیک ہی تھا، جس نے چین کی بلین ڈالر منصوبے کو خطرے کے منہ میں ڈالا تھا اور انکے حملے دنیا کی توجہ کھینچتی رہی۔ اسی وجہ سے بلوچ قومی جنگ کے بارے میں عالمی سطح پر بات ہونا شروع ہوا اور پاکستان کو یہ خبر کھاتی رہی، وہ ہر طریقے سے استاد کو شکست دینے پر تلا ہوا تھا اور اس نے آخر اپنا کام مکمل کرلیا اور ہمیں اور دنیا کو ایک انسان دوست انسان سے محروم کیا اور ہمیں مظبوط کرتا رہا، ہشیار کرتا رہا، استاد اور انکی دی ہوئی راہیں نصحیتیں سوچ فکر سب ہم کو مظبوط کرتے رہے۔
استاد اسلم نئی حکمت عملیوں کے ساتھ دشمن کو توڑنا چاہتا تھا، اسکی بنائی ہوئی ہر ایک حکمت عملی سے دشمن بے حد ڈرتا تھا، استاد ایک عظیم شخصیت کا مالک تھا۔ جس نے کئی لوگوں کو متاثر کیا تھا اور ہر ایک سے نرم لہجے اور میٹھی میٹھی باتیں کرتا تھا۔ استاد نے نوجوان طبقے میں سرداریت کے خلاف ایک جذبہ پیدا کیا اور انکی تربیت کرتا رہا کہ اپنے قوم کی پیروی کرو تاکہ دنیا میں بلوچ قوم کا بھی نشان اور ایک شناخت رہ جائے، وہ ایک آزاد اور جمہوری بلوچستان کا خواب دیکھتا تھا اور اسے پانے کیلئے وہ ہر سخت اور کٹھن راستے پر چلنے سے گریز نہیں کرتا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔