بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین سہراب نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں بیٹھے بلوچ ماؤں اور بہنوں سمیت ماما قدیر بلوچ کو سنگین نتائج کی دھمکیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دس سالوں سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے مختلف پر امن ذرائعوں کو استعمال میں لاتے ہوئے حکومتی اداروں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے پیاروں کو منظر عام پر لایا جائے اور اگر ان پر کوئی جرم ثابت ہوا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے قانون کے مطابق سزا کے عمل سے گزارا جائے لیکن ان دس سالوں کے پر امن احتجاج کو مکمل نظر انداز کرکے ریاستی ادارے اپنے طاقت کے نشے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
چیئرمین سہراب بلوچ نے کہاکہ بلوچ اسیران کو بازیاب کرنے کے بجائے ریاست کے عسکری ادارے اپنے کاروائیوں میں کئی گناہ اضافہ کرچکے ہیں، ان دس سالوں میں ریاستی عسکری اداروں کے ہاتھوں چالیس ہزار سے زیادہ بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کیا گیا۔
انہوں نے مذید کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کے عمل میں تیزی پیدا کرنے کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے احتجاجی مظاہرے، ریلیاں بھی نکالی گئی، لواحقین کی طرف سے بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے پرامن و قانونی احتجاج کئے گئے لیکن ریاست کے سول و عسکری اداروں نے ان کے مطالبات کو نظر انداز کرکے ہمیشہ طاقت کے استعمال کررہے ہیں جو مظلوم قوم کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔
چیئرمین نے کہاگذشتہ دو مہینوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں بیٹھی ہوئی ہیں ان دو مہینوں میں ریاست کے اداروں نے اس پر امن احتجاجی لواحقین کو مکمل نظر انداز کردیا جس سے مجبور ہو کر آج لواحقین نے اپنا احتجاجی کیمپ پریس کلب سے وزیر اعلی ہاؤس کی جانب منتقل کردیا اور کوئٹہ کی یخ بستہ سرد موسم میں ہمت و بہادری کی اعلی مثال قائم کرتے ہوئے دھرنا دیا لیکن پر امن احتجاج سے خائف ریاست نے سنگین نتائج کی دھمکی دیکر لواحقین کو زبردستی دھرنے سے اٹھنے پر مجبور کردیا جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں شامل ہے۔
انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ایک طرف ریاست کے عسکری ادارے بلوچ فرزندوں کو جبری گمشدہ کررہے ہیں اور دوسری طرف سول ادارے عسکری اداروں کی زبان بول کر لواحقین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچوں کی جبری گمشدگی کے معاملے پر سول و عسکری ادارے ایک سوچ رکھتے ہیں۔
اپنے بیان میں چیئرمین نے بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا بھرپور ساتھ دیں تاکہ بلوچ لاپتہ
افراد کا مسئلہ دنیا کے سامنے صیح معنوں میں اجاگر ہوسکے۔