گمشاد کو پاکستانی فورسز نے چیک پوسٹ پر لوکل گاڑی سے اتار کر حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے ضلع آواران سے پاکستانی فورسز نے چیک پوسٹ پر ایک بزرگ بلوچ گمشاد ولد لیواری کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
مقامی میڈیا زرائع کے مطابق گذشتہ روز 20 دسمبر 2018 بروز جمعرات کو فورسزنے آواران کے علاقے مالار کرک ڈھل کے رہائشی گمشاد ولد لیواری کو مسافر گاڑی سے اُس وقت اُتار کر حراست میں لے لیا جب وہ کراچی سے آواران آرہا تھا۔
ذرائع کے مطابق لاپتہ گمشاد ولد لیواری کے جوان سال فرزند صدیر احمد کو سیکیورٹی فورسز نے دو دن قبل آواران کے علاقے مالار کرک ڈھل سے حراست بعد لاپتہ کر دیا تھا۔
یاد رہے بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جد و جہد میں سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کے اعداد و شمار کو 40 ہزار سے زائد بتایا جاچکا ہے، تنظیم کے مطابق جبری گمشدگیوں میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ وی بی ایم پی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے ان جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر و سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کا انسانی حقوق کی عالمی دن کی مناسبت سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس حوالے سے کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان میں مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے، وفاقی وصوبائی حکومتیں ان معاملات کو بہتر کرنے کے لئے اداروں کیساتھ بات کر کے کوئی حل نکالیں، نئی حکومت آنے سے لاپتہ افراد کے مسئلے میں مزید شدت آگئی ہے۔
مزید برآں بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ کا گذشتہ دنوں ایک بیان میں انکوائری
کمیشن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان بھر میں صرف 899 لوگ لاپتہ کئے گئے ہیں۔ ہم اسے مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ انکوائری کمیشن پاکستان کے جنگی جرائم کو چھپانے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف مقبوضہ بلوچستان میں جنوری سے اکتوبر تک ایک ہزار کے قریب لوگ لاپتہ کئے گئے ہیں اور وہ لوگ لاپتہ نہیں بلکہ پاکستان کے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے زندانوں میں انسانیت سوز تشدد سہہ رہے ہیں۔