میڈیا واچ ڈاگ کی نئی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ سیاستدانوں نے خود پر ہونے والی تنقید کے نتیجے میں نفرت انگیز بیانات کا پرچار کیا جس کے نتیجے میں سال 2018 میں قتل کیے گئے صحافیوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
میڈیا واچ ڈاگ رپورٹز ود آؤٹ بارڈرز کے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال سعودی صحافی جمال خاشقجی سمیت 80صحافیوں کو قتل کیا گیا اور 348 کو جیل کی ہوا کھانی پڑی جبکہ 60 سے زائد کو یرغمال بنا کر رکھا گیا۔
ادارے کے سربراہ کرسٹوف ڈیلوئر نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد اس سطح تک پہنچ گیا ہے جو آج تک کبھی نہیں دیکھا گیا اور صورتحال بہت تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سیاستدانوں اور بااثر کاروباری شخصیات کا بھی بڑا عمل دخل رہا جنہوں نے خود پر ہونے والی تنقید کے نتیجے میں ان صحافیوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کا پرچار کیا اور نتیجتاً صحافیوں کے قتل کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اپنی رپورٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ذکر نہیں کیا جو اکثر صحافیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور کچھ صحافیوں کو ملک کا دشمن بھی قرار دے چکے ہیں۔
ڈیلوئر نے کہا کہ نفرت انگیز بیانات کے پرچار نے تشدد کو قانونی شکل دی جس سے صحافت اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
سال 2018 میں امریکا بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست کا حصہ بن گیا اور اس فہرست میں اس کا پانچواں نمبر ہے جہاں جون میں اخبار کیپیٹل گزیٹ کے دفتر میں فائرنگ کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک ملک افغانستان رہا جہاں فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے شاہ مرئی سمیت 15 صحافی لقمہ اجل بن گئے جبکہ 11 اور 9 ہلاکتوں کے ساتھ شام اور میکسکو بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر موجود ہیں۔
میڈیا واچ ڈاگ کے سربراہ کے مطابق صحافیوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور مواد کو سوشل میڈیا نے بھی بڑھاوا دیا جو اس سلسلے میں نقصان کا بہت حد تک ذمے دار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 3سال تک صحافیوں کی اموات کی تعداد میں کمی دیکھی گئی جس کے بعد اس سال پیشہ ورانہ صحافیوں کی اموات میں 15فیصد تک اضافہ دیکھا گیا اور اس سال قتل، جیل، قیدی بنانے کے ساتھ ساتھ جبری گمشدگی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔
ڈیلوئر کے مطابق صحافیوں پر 2018 قبل آج تک اس حد تک تشدد اور بدترین رویے کی مثال نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ استنبول کے سعودی سفارتخانے میں جمال خاشقجی اور سلوواکیہ کے نوجوان ڈیٹا جرنلسٹ جان کیوسک اور ان کی گرل فرینڈ کے قتل سے اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی صحافت کے دشمن کس حد تک جا سکتے ہیں۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سے 50 فیصد سے زائد کو جان بوجھ کر قتل کی گیا جبکہ 31 صحافی مختلف پرتشدد واقعات کے دوران پیشہ ورانہ ذمے داریاں انجام دیتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ غیرپیشہ ورانہ یا سٹیزن جرننلسٹ اب جنگ زدہ علاقوں یا جابرانہ حکومتوں کے خلاف خبروں کے حصول میں اہم کردار کر رہے ہیں کیونکہ ایسی جگہوں پر پیشہ ورانہ صحافیوں کے لیے کام کرنا بہت دشوار ہو گیا ہے۔
صحافیوں کو جیل بھیجنے میں چین اب بھی سرفہرست ہے جہاں 60 صحافیوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی جن میں سے 46 بلاگرز ہیں جنہیں صرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پوسٹ لگانے کے جرم میں جیل میں ڈال دیا گیا اور ان سے غیرانسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں ترک حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس نے محض ایک لفظ یا فون کال کی بنیاد پر صحافی کفکیسک کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا تھا۔
ترکی میں 33 صحافی جیل میں قید ہیں جبکہ 60سال سے زائد عمر 3 صحافیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے جن کی ضمانت پر رہائی کا کوئی امکان نہیں۔
فہرست میں مصر اور ایران بھی شامل ہیں جہاں بالترتیب 38 اور 28 رپورٹرز و بلاگرز کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔