بائی پولرڈس آرڈر اور وار سائیکی ۔ برزکوہی

439

بائی پولرڈس آرڈر اور وار سائیکی

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

ویتنام کے انقلابی لیڈر ہوچی منہ کہتا ہے، دوران جنگ و جنگی کیمپ میں کبھی کبھی کچھ کامریڈوں پر ایسی کیفیت ذہن پر طاری ہوتا تھا کہ اچانک موڈ خراب ہوجاتا تھا، چڑےچڑےپن کی وجہ سے بس مزاج و طبیعت کسی سے مطابق نہیں رکھتا تھا، یا کچھ کامریڈوں کا موڈ اور رویہ مجھ سے بھی اچانک خراب ہوجاتا تھا، میں بہت پریشان ہوتا تھا کہ محاذ جنگ پر ایک ہی نظریئے اور ایک ہی مقصد کے مسافر ہوتے ہوئے، پھر کیوں ایک دوسرے سے نفرت ہوتا ہے، پھر اچانک موڈ برابر ہوتا، ہم آپس میں ایسے شیر و شکر ہوتے کہ کچھ ہوا بھی نہیں، ہم زندگی بھر بس جدا نہ ہوں۔

بقول ہوچی منہ کہ میں پھر سمجھتا تھا، یہ کیفیت بھی شاید وار سائیکی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے یعنی انسانی مزاج اور موڈ کا تیزی کے ساتھ بدلنا۔

نفسیاتی مرض بائی پولرڈس آرڈر مرض ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے، یہ کیفیت بھی دوسرے نفسیاتی امراض کی طرح ماحول توارث اور اکثر جنگ زدہ حالت سے پیدا ہوتا ہے، عام لوگوں کے ساتھ خصوصاً کسی بھی تحریک کی قیادت سے لیکر عام جہدکار اس کا شکار ہوتے ہیں۔

مختصراً یہ جاننا ضروری ہے کہ خود بائی پولر ڈس آرڈ مرض کیا ہے؟ اس کی کیفیت و علامات کیا ہیں ذراغور فرمائیں۔

نفسیاتی اور ذہنی مرض مینک یا بائی پولر ڈس آرڈرایک قسم کی موڈ و مزاج اور رویوں کی تیزی کے ساتھ خرابی ہوتا ہے۔ اس مرض میں انسان کا موڈ و مزاج کبھی حد سے زیادہ خوش، پرامید اور مطمئین کن بھی ہوجاتا ہے اور کبھی اس میں بے انتہا اداسی، مایوسی اور افسردگی آجاتی ہے۔ اس مرض کے دو حصے ہیں۔ پہلے دورمیں بہت زیادہ خوشی، کچھ کرنے کی لگن و دلچسپی، پرامیدی، ہیجان انگیزی اور بے انتہاتوانائی ہوتی ہے۔ اسے ہائیپومانیا (hypomania) یا مینک ایپی سوڈ(manic episode) کہتے ہیں۔ اس میں لوگ عموماً نتیجے کی پروا کئے بغیر قدم اٹھاتے اور فیصلے کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرے دورڈپریسیو ایپی سوڈ(depressive episode) میں مریض شدید تھکن، بے بسی، کام میں عدم دلچسپی، سست، کاہل، نڈھال رہنے اور خودترسی، مایوسی، اور حتیٰ کہ کبھی کبھبار خودکشی کے فیصلے کی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے۔

پھر دونوں دوروں کے درمیانی وقفے میں مریض عموماً نارمل رہتا ہے۔ کچھ ایسی کیفیات بھی ہوتی ہیں جن میں دونوں دوروں کی ملی جلی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ یہ علامات کچھ ہفتے بھی رہ سکتی ہیں، کچھ ماہ بھی اور بعض اوقات کئی سال بھی چلتے ہوئے زندگی بھر رہتا ہے۔ ماہر نفسیات کے نزدیک بائی پولر ڈس آرڈر کی تشخیص ایک پیچیدہ عمل ہے کیونکہ اس کی بہت سی علامات دوسرے ذہنی بیماریوں کی علامات سے ملتی جلتی ہیں۔ اور مرض کے کچھ علامات ذہنی دباؤ چڑاچڑ پن خاموش رہنا ذندگی سے بیزار، اکیلا پن اور تنہائی کو پسند کرنا یا حد سے زیادہ باتیں کرنا یا زور زور سے ہنسنا، جلدی رونا، ہر وقت اُداس رہنا، بھوک اور وزن کم ہو جانا یا حد سے زیادہ کھانا یا وزن کا بڑھنا، نیند آنے میں مشکل پیش آنا یا حد سے زیادہ سونا، ہر وقت تھکاوٹ محسوس کرنا اور اپنی ذمہ داری میں سستی، کاہلی کرنا، توجہ نہ دینا اور دلچسپی نہ لینا یا خوشی میں بھڑ ک بازی کرنا بڑے بڑے دعوے کرنا اور سب سے خطرناک علامت اپنی قوت ارادی اور خود اعتمادی کھو دینا یا ایک دم حد سے زیادہ پر اعتماد ہونا اور ساتھ ساتھ معمول کے برعکس سونا، یعنی شام کے وقت سونا مغرب کو جاگنے سے دورڈپریسیو ایپی سوڈdepressive episode کی کیفیت میں انسان اکثر مبتلا ہوتا ہے، جاگنے کے فوراً بعد انسان مایوسی، افسردگی اور اداسی کی کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔

بہرحال یہ دونوں کیفیت یا دوروں میں انسان کسی بھی چیز یا قدم اٹھانے کے فیصلوں سے گریز کرے بہتر ہے کیونکہ یہ عام اور نارمل کیفیت نہیں ہوتے ہیں اور اس کیفیت کے فیصلوں سے دور رس نتائج بھی برآمد نہیں ہوتے ہیں، شاید کبھی برآمد ہو لیکن اکثر نہیں ہوتا ہے مثلا اس اداسی اور مایوسی کی کیفیت میں انسان یہ صرف سوچے یا اپنے ذہن میں رائے قائم کرے کہ میں ہمت ہار چکا ہوں، ابھی کچھ نہیں کرسکتا ہوں تو ایک بار یا بار بار اس طرح سوچنے لگے یا اپنے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے لگے، پھر یہ سوچ اور حتمی رائے خود انسان کے دماغ کے اس خانے میں جاکر پناہ لے گا، جہاں پھر اسے مجبوراً ایسے فیصلے کرنے کے لیے مجبور کردیتی ہے۔ اسی طرح اگر وہ ایسی کیفیت میں بار بار یہ سوچے اور اپنے ذہن میں یہ حتمی رائے قائم کرے کہ “زندگی کچھ نہیں بس خود کشی کروں گا” اگر یہ سوچ ذہن کے ایک کونے میں داخل ہوگیا تو انسان خود کشی کا فیصلہ ضرور کریگا۔

اسی طرح اگر اسی کیفیت میں مبتلا ہوکر یہ سوچے اور اپنے بارے میں یہ حتمی رائے قاہم کرے کہ اب میں جدوجہد نہیں کرسکتا ہوں، میرے بس کی بات نہیں تو جنگ سے دستبردار ہوجاونگا تو اپنے بارے میں یہ رائے یا سوچنا خود اپنے آپ کو ایک مقام پر لاکر جنگ سے دستبرداری پر مجبور کردیتی ہے۔ اسی کیفیت میں بقول ہوچی منہ کے اگر آپ کے دوست سے آپ کا موڈ و مزاج خراب ہوا اور آپ یہ سوچنے لگے یا رائے قائم کیا کہ اب بس اس کے ساتھ رشتہ ختم کردوں تو آخر کار آپ کو فیصلہ کرنا پڑے گا، پھر گوکہ آپ کا فیصلہ غلط ثابت کیوں نہ ہو پھر انسان اپنی انا کی تسکین کے خاطر بھی دوستی کی واپس کوشش نہیں کریگا کیونکہ کسی بھی فیصلے کے بعد انسان کی انا بھی دیوار بن کر سامنے کھڑا ہوگا۔

اسی طرح ہائیپومانیا (hypomania) یا مینک ایپی سوڈ(manic episode) خوشی اور پرامیدی کی کیفیت نتائج کی پرواہ کیئے بغیر فیصلہ کرنا میں یہ کروں گا، ایسا کروں گا اور اس کے نتائج کا اندازہ نہ ہو تو درست نہیں ہوگا۔ یعنی اس کیفیت یعنی خوشی میں بڑے سے بڑے دعوے کرنا پھر سمجھنا بھی غلط ہے لیکن انا کی تسکین کی خاطر کرنا تو نتائج صحیح ثابت نہیں ہونگے۔

ویسے تو اکثر انسان اس نفیساتی مرض کے شکار ضرور ہیں لیکن اس نفسیاتی مرض کے بھی سطوحات ہوتے ہیں، کچھ کم کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ ہونا پھر نفسیاتی مرض میں شمار ہوتا ہے، خاص کر محاذ جنگ میں جہدکاروں میں زیادہ پایا جاتا ہے، جب زیادہ سطح پر ہوگا تو اس کا علاج لازمی ہے یا پھر دوران امراض اس مرض کے دونوں کیفیات میں حتمی رائے اور فیصلہ کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے بلکہ دونوں کیفیات یا دوروں کے درمیان انسان جب نارمل ہوتا ہے تو کوئی بھی فیصلہ کرے وہ بہتر اور شعوری فیصلہ ہوگا اور اس مرض سے چھٹکارہ کسی ماہر نفسیات کے ذریعے فکری تھراپی اور تحلیل نفسی کے ذریعے کرے یا خود اپنی علاج کرنا بھی ممکن ہوگا یعنی اپنی سرگرمیوں کو مسلسل ہر حال میں جاری رکھنا، ہر وقت مصروف رہنا، اپنے لیئے اپنا کام و کاج، کھانے، سونے، پڑھنے، آرام اور خاص کر ورزش کرنے کے لیے ٹائم ٹیبل ترتیب دینا۔ اگر نشہ آور چیزوں کا عادی ہوا تو وہ فوراً ترک کردینا، بہرحال مسلسل مصروف رہنا، اپنے کام پر زیادہ توجہ، بیکار بلکل نہیں بیٹھنا اور ایک ہی ماحول میں نہیں رہنا، ماحول تبدیل کرنا آہستہ آہستہ اس نفسیاتی مرض سے چھٹکارے کا سبب ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔