آؤ! لاپتہ افراد کی آواز بن جائیں – فقیر بلوچ

315

آؤ! لاپتہ افراد کی آواز بن جائیں

فقیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہاں سے شروع کروں؟ اپنی اُن ماوں اور بہنوں کی سسکیوں سے جو اپنے پیاروں کی انتظار میں یا ان کی بازیابی کیلئے دن رات ایک کررہے ہیں. اور ہر دن جھوٹی امیدوں کے دروازوں کو کھٹکھٹارہے ہیں لیکن سب کے سب بے سود ثابت ہورہے ہیں؟

آج بلوچستان میں ہزاروں کے حساب سے لوگ لاپتہ ہیں، ابھی تک کسی کا کوئی پتہ نہیں ہے کہ وہ لوگ زندہ ہیں یا نہیں آج بلوچستان میں ایسا کوئی گھر نہیں ہوگا جہاں کسی کی لاش نہیں پہنچا ہو یا وہاں کوئی لاپتہ نہیں ہر گھر میں ماتم ہی ماتم ہے جہاں بھی دیکھیں تمہیں فریاد کے علاوہ کچھ اور دیکھائی نہیں دیتا ہے۔

ہر کوئی اپنے لختِ جگر کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہے کہ کب اس کا لاڈلا واپس آئے گا. کون جانے ان ماؤں کی دردوں کو۔

میں بلوچستان کے ہزاروں ان ماؤں اور بہنوں سے ملا ہوں، جو اپنے پیاروں کی انتظار میں ہیں کہ کب ہمارے پیارے واپس ہمارے ہاں ہونگے، وہ اسی امید پر زندہ ہیں. آج بلوچستان میں ایسے ہزاروں مائیں، بہنیں جو اپنے پیاروں کی جدائی کی تاب نہ لاتے ہوئے اس لافانی دنیا سےفنا ہوگئے ہیں. ان میں بی این ایم کے سابقہ مرکزی کیمٹی کے ممبر ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی ماں ہے جو اپنے فرزند کی جدائی برداشت نہ کرسکی اور دنیا سے چل بسی۔

ایک اور مثال ہمارے سامنے ہے ابھی کچھ مہینے پہلے سفر بلوچ کی بیوی گنجل بلوچ جو اپنے شوہر اور کزن شیبر بلوچ کے انتظار میں تھی اسی انتظار اور کرب کے ساتھ اس دنیا سے چل بسی۔

اسی طرح بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے نصراللہ بلوچ کی سربراہی میں ایک بلوچ فار مسنگ پرسنز نامی تنظیم قائم ہے. جو گذشتہ دس سال سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ اس تنطیم کے توسط سے لاپتہ اسیران کا اہلخانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جدو جہد کررہے ہیں۔

دوسری طرف ماما قدیر کی جانب سے کوئٹہ و کراچی پریس کلب میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا گیا ہے، اسی طرح ماما قدیر و لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کی خاطر تین ہزار کلو میٹر سے زیادہ پیدل طے کرچکے ہیں، جو کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکا ہیں۔

بلوچستان میں ہر روز سرزمین کے حقیقی فرزند پاکستانی سیکورٹی فورسز و خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہورہےہیں ہزاراں گھر، آباد بستیاں، ریاستی فورسز جلارہے ہیں۔

لاپتہ افراد کی فہرست میں ہرطبقے کے لوگ شامل ہیں، بچے، نوجوان، چھوٹے بچوں سے لیکر بلوچ ماوؤں اوربوڑھوں تک شامل ہیں، چائے طالب علم، ٹیچراور انپڑھ ، دانشور ہو وہ اس ناپاک پاکستانی مظالم کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔ اُن میں بلوچ آزادی پسندوں کے بہت ہی سرگرم کارکن شامل ہیں. ان مظالم کے زد میں سیاسی ورکرز بھی آچکے ہیں وہ بی ایس او آزاد، بی این ایم اور دوسرے آزادی پسند تنظیموں کے ہزاراں فرزند شامل ہیں، اُنہوں کے چند نام مندرجہ ذیل ہیں۔

بی ایس او آزاد کے سابقہ وائس چیئرمین ذاکر مجید، بی ایس او آزاد کے سابقہ چیئر مین زاہد بلوچ، سیکریٹری جنرل ثنا بلوچ، سابقہ انفار میشن سیکریٹری شبیر بلوچ، سابقہ مرکزی کیمٹی کے رکن حسام بلوچ، نصیر بلوچ، بی این ایم کے ڈاکٹر دین محمد بلوچ رمضان بلوچ اور ہزارہا کے حساب زندانوں میں پابندِ سلاسل ہیں۔

گذشتہ ایک مہینے سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ایک بار پھر زور شور سے احتجاج جاری ہے. اس احتجاج کی روح بی ایس او آزاد کے سابقہ انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ کی بہن سیما اور شبیر کی بیوی زرینہ ہیں اور آج ہزاروں لاپتہ افراد کے لواحقین اسی احتجاجی کیمپ میں شامل ہوگئے ہیں۔

آج 10 دسمبر ہے، انسانی حقوق کا عالمی دن ہے اور انسانوں کے حق و حقوق کے بارے میں ریفرنس منعقد کئے جاتے ہیں. اور لوگوں کو اُن کے حقوق کے بارے میں لکچر دیتے ہیں. لیکن آج بلوچستان میں پاکستانی مظالم کے خلاف انسانی حقوق کے ادارے مکمل طورپر خاموش ہوچکے ہیں اور کوئی بلوچ قوم پر پاکستانی مظالم کے خلاف آواز نہیں اُٹھا سکتا، اگر کوئی انسان دوست پاکستانی مظالم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے تو دوسرے دن شہید یا لاپتہ ہوتا ہے۔ اِس کی مثال بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے انفارمیشن سیکریٹری نواز عطا کی ہے، جو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اُٹھاتا تھا تو اُسے خاموش کرنے کیلئے 28 اکتوبر 2017 کو کراچی گلستان جوہر سے لاپتہ کیا گیا، جو تاحال لاپتہ ہے.

اسی طرح گذشتہ روز کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بی ایس او کے چیئرمین ظریف رند اپنے ساتھیوں کے ساتھ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اُٹھارہے تھے اور لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی تو دوسرے دن لاپتہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ لاپتہ ہوگئے۔

بلوچستان میں کوئی محفوظ نہیں ہے اور پاکستان خود انسانی حقوق کا ممبر ہے لیکن وہ پھر بھی خود انسانی حقوق کے آئین کی خلاف ورزی کررہا ہے. اسی طرح انسانی حقوق کی توجہ بلوچ قوم کے اُوپر پاکستانی مظالم کو دنیا تک پہنچانے اور اُسکی توجہ دلانے کیلئے بی ایس او آزاد نے گذشتہ سال 8 جون کو لاپتہ افراد کے دن کا اعلان کیا، جو بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کو ایک دن کے مناسبت سے پوری دنیا میں اجاگر کرنے کی کوشش ہے۔ سب آزادی پسند تنظیم و ادارے ایک آواز بن کر لاپتہ افراد کے گھمیر مسئلے کو ایک قوت و طاقت کے ساتھ اُٹھائیں تاکہ دنیا و دنیا کے انسان دوست تنظیمیں لاپتہ افراد کے مسئلے کی طرف متوجہ ہو کر نوٹس لیں۔

دنیا تک اپنا آواز پہنچائیں کہ پاکستان خود انسانی حقوق کا ممبر ہے، پھر بھی وہ بلوچ قوم پر ظلم کررہا ہے. کیا پاکستان بلوچ قوم پر اتنے ظلم کے باوجود پھر بھی انسانی حقوق کا رکھوالا ہوسکتا ہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ظالم انسانی حقوق کا تحفظ کرسکتا ہے. اس کے مناسبت سے ہم سب کا بلکہ پوری بلوچ قوم کا فرض بنتا ہے کہ اس آواز کے ساتھ آواز جوڑ کر دنیا تک اپنی آواز پہنچائیں کیونکہ یہ مسئلہ ایک فرد، ایک خاندان و ایک قبیلے کا نہیں بلکہ یہ مسئلہ پوری بلوچ قوم کا مسئلہ ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔