ریاست لاپتہ افراد کیلئے جدوجہد کو ختم کرنے پر سختی سے گامزن ہے – مہیم خان بلوچ

139
File Photo

پر امن احتجاج کرنے والے سیاسی ورکروں طلبہ تنظیموں کے سربراہوں، ہمدردوں اور مختلف مکتبہ فکر کے افراد کا اغواء اور مسخ شدہ لاشیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ وفود کا اظہار خیال

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3417 دن مکمل ہوگئے، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں انسانی حقوق کے معروف کارکن جلیلہ حیدر،حوران بلوچ، ایچ آر سی پی کے چیئرمین حبیب طاہر، بی این پی کے سی سی ممبر حق نواز بزدار، سابقہ سینٹر اور چیئرمین بی ایس او مہیم خان بلوچ، مسلم لیگ نون پشین کے صدرسعد اللہ ترین ایڈوکیٹ شامل تھے۔

حبیب ظاہر ایڈوکیٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اپنی پوری قوت سے بلوچ قومی شناخت اور بلوچ مسنگ پرسنز کے پرامن جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کی پالیسیوں پر سختی سے گامزن ہے۔ ایک طرف پوری عسکری قوت کے ساتھ بلوچ سول آبادیوں پر یلغار بربریت زرووں پر جاری ہے تو دوسری جانب پر امن احتجاج کرنے والے سیاسی ورکروں طلبہ تنظیموں کے سربراہوں، ہمدردوں اور مختلف مکتبہ فکر کے افراد کا اغواء اور مسخ شدہ لاشیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فورسز اپنے تمام ظلم و جبر کو نت نئے طریقوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں، بلوچ خواتین کو بے ننگ کرنا اور انسانیت سوز ظلم و جبر سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر دین محمد جن کو 29 جون 2009 کو اورناچ سے ڈیوٹی کے دوران اغواء کیا گیا، ذاکر مجید کو 8 جون 2009 کو جنگل کراس مستونگ سے خفیہ اداروں کے لوگوں نے عینی شاہدین کے سامنے اغواء کیا اسی طرح زاہد بلوچ کو جو بی ایس او کے چیئرمین تھے، انہیں بلوچ خواتین کے سامنے سٹیلائٹ ٹاؤن سے اغواء کیا گیا یہ سب ابھی تک لاپتہ ہیں شاہد یہاں بلوچ دھرتی پر کوئی ایسا دن نہ ہو جس دن لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں نہ پھینکی گئی ہوں اور کوئی ایسا دن نہیں کہ کوئی بلوچ فرزند اغواء نیں ہوئے ہو۔