قابلِ اعتناء یا لغو؟ – برزکوہی

426

قابلِ اعتناء یا لغو؟

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

دانستہ سازش، شرارت، شیطانی، گمراہی، بکواس، حربہ، پروپگنڈہ، الزام، لاعلمی، کم عقلی، نالائقی، جھوٹ، منافقت، بے شعوری وغیرہ وغیرہ جو بھی سمجھیں صحیح، مگر متذکرہ چیزوں میں سے ایک چیز ضرور ہوگا جو بلوچ قوم یا بلوچ جہدوجہد برائے قومی آزادی کو طبقات میں پیش کرتا ہے۔

جس طرح 90 کی دہائی میں ڈاکٹر الحئی، ڈاکٹر مالک اینڈ کمپنی پاکستانی ریاست کی ایماء و سازش کے تحت اختر مینگل اور ڈاکٹر الحئی اور ڈاکٹر مالک والوں کی علیحدگی، آپسی اختلاف کے بنیاد پر مڈل کلاس، اپر کلاس و لوئر کلاس کا نعرہ بلند ہوا، یہ بلوچ سماجی اور قومی خدوخال کے حوالے سے حقیقی نہیں بلکہ گمراہ کن تھی۔

میں آج ایک ایسا موضوع قابل بحث لاتا ہوں، جس کے بارے میں میں خود ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرسکا ہوں کہ یہ موضوع قابل اعتناء و قابلِ بحث ہے یا نہیں؟

میں پہلے بھی اپنے تحریروں میں ذکر کرچکا ہوں اور آج بھی برملا کہتا ہوں کہ بلوچ قوم آج جس عہد سے گذر رہا ہے وہ صرف اور صرف ایک غلام قوم ہی نہیں بلکہ ایک محکوم قوم بھی ہے، غلام اس وقت کہنا مناسب ہوگا جب بلوچ غلامی کو قبول کرے، بلوچوں نے آج تک غلامی کو قبول نہیں کیا ہے تو بلوچ اس وقت محکوم قوم ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

لیکن دیہاتی چوہدری کی طرح لاعلمی، بےشعوری، نالائقی یا سازش، شاطری، مکاری اور گمراہی کی نیت و عزائم کے ساتھ اکثر مغربی، مشرقی، جنوبی اور شمالی کچھ زائدالمعیاد یا موجودہ کچھ ایسے اصطلاح ہیں، جن کا نہ سر کا پتہ ہے اور نہ دم کا پتہ، بس صرف بے دھڑک استعمال ہوتے ہیں۔

ﺍﯾﮏ ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﻟﮍﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﭘﮍﮪ ﻟکھ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺩﯾﮩﺎﺕ ﮔﯿﺎ ﺗﻮﮔﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﭘﺘﺮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ہے؟

ﻟﮍﮐﺎ : ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮑﮭﻨﮯﺳﮯ ” ﻟﻮﺟﮑﺲ” ﮐﻠﯿﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ

ﮨﯿﮟ .

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﯾﮧ ” ﻟﻮﺟﮑﺲ” ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ؟

ﻟﮍﮐﺎ ” : ﻟﻮﺟﮑﺲ” ﻣﻨﻄﻖ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﯾﮧ ﻣﻨﻄﻖ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ؟

ﻟﮍﮐﺎ : ﻣﻴﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺁﭖ ﮐﻮ۔۔۔۔

ﻟﮍﮐﺎ : ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﺁّﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﺎ ﮨﮯ؟

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﮨﺎﮞ ﮨﮯ

ﻟﮍﮐﺎ : ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﺑﮍﺍ ﮨﻮﮔﺎ؟ (ﺟﺲ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ

ﮐﮯﻟﯿﮯ کتا ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ)

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﮨﺎﮞ ﮔﮭﺮ ﺗﻮﺑﮍﺍ ﮨﮯ ..

ﻟﮍﮐﺎ : ﭘﮭﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﻧﻮﮐﺮ ﭼﺎﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ؟

(ﺑﮍﮮﮔﮭﺮﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ)

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﮨﺎﮞ ﺟﯽ ﻧﻮﮐﺮﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﯿﮟ ..

ﻟﮍﮐﺎ : ﺍﺳﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺧﺎﺻﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ؟

(ﻧﻮﮐﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ)

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﮨﺎﮞ ﺟﯽ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺧﺎﺻﯽ ﮨﮯ ..

ﻟﮍﮐﺎ : ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯿﮟ۔

ﺍﻭﺭﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯿﮟ۔ ﺍﺳﮑﺎ

ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ۔۔۔۔۔!

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﺑﺲ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮑﮭﻨﮯﺳﮯ “ﻟﻮﺟﮑﺲ” ﮐﯿﺴﮯ ﮐﻠﯿﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔۔

ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺷﯿﺪﺍ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺩﺑﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ :

ﺷﯿﺪﺍ : ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﯾﮧ ﺟﻮ ﻟﮍﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﭘﮍﮪ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ آیا ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮﺍ؟

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﺷﯿﺪﮮ , ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﺳﮯ “ﻟﻮﺟﮑﺲ” ﮐﻠﯿﺮ ﮨﻮجاﺗﯽ ﮨﯿﮟ ..

ﺷﯿﺪﺍ : ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﯾﮧ “ﻟﻮﺟﮑﺲ” ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ؟

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ” : ﻟﻮﺟﮑﺲ” ﻣﻨﻄﻖ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ..

ﺷﯿﺪﺍ : ﯾﮧ ﻣﻨﻄﻖ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ؟

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﻣﻴﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﮐﻮ۔۔۔۔

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﺎ ﮨﮯ؟

ﺷﯿﺪﺍ : ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ , ﻣﯿﺮﮮﮔﮭﺮﻣﯿﮟ ﮐﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ..

ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ : ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﯿﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ تھی…

بالکل اسی طرح بلوچ سماج یا قوم میں اپر کلاس و مڈل کلاس کے اصطلاحات استعمال ہوتے ہیں اور کسی کو معلوم نہیں دنیا میں ان طبقات کا وجود کیسے اور کس طرح وجود پذیر ہوا ؟

کیا عجیب اور مضحکہ خیز من گھڑت منطق نہیں ہے کہ بلوچ سرداروں، نوابوں، سردارزاوں، نوابزادوں، میر و معتبروں کو اپر کلاس اور عام بلوچ کو مڈل کلاس یا لوئر کلاس کہنا سمجھنا اور تشریح کرنا کس معنی مفہوم تھیوری اور لوجک کی بنیاد پر؟ چوہدری والا لاجک تو نہیں؟

یعنی جب بات طبقے یا طبقات کا ہوتا تو ذہن میں جلد ہی 3 طبقات گردش کرنا شروع کرتے ہیں یعنی بورژوا، پیٹی بورژوا اور پرولتاریہ اب ذرا غور کریں تو بلوچ قوم میں ان تین طبقات کا کیا وجود ہے؟ اگر ہے تو بورژوا طبقہ کون؟ پیٹی بورژوا طبقہ کون اور پرولتاریہ طبقہ کون؟

طبقہ یا طبقات کے علمی مفہوم تشریح کے حوالے سے ویسے مارکس اینگز سمیت بے شمار مفکروں اور فلاسفروں کی تشریح اور وضاحت موجود ہے لیکن میں باقی سب چھوڑ کر قارئین کو آسانی کے ساتھ سمجھانے کے لیے سائرس خلیل کی تحریر طبقہ خود کیا بلا ہے سے استفادہ کرتا ہوں وہ لکھتے ہیں “دراصل طبقہ ایسے افراد جو ایک ہی طریقے سے روزی روٹی کماتے ہیں۔ یا یوں کہا جائے کہ ذریعہ معاش جن افراد کا ایک جیسا ہو وہ ایک ہی طبقے کے افراد کہلاتے ہیں۔ مثلاً سرمایہ داری نظام میں تمام سرمایہ داروں کا روزی روٹی کمانے کا طریقہ یکساں ہے۔ وہ ذرائع پیداوار کے مالک ہوتے ہیں یعنی فیکٹریاں، بینک اور کمپنیاں وغیرہ ان کے اپنے قبضے میں ہوتی ہیں جہاں مزدور، ملازم، کام کرتے ہیں اور مالک سے طے شدہ معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ تمام سرمایہ داروں کا طبقہ ایک ہی ہوا کیونکہ ذرائع پیداوار ملکیت کی وجہ سے ان کا طریقہ یکساں ہے۔ اسی طرح تمام مزدور ملازم وغیرہ ایک ہی طبقے کے افراد ہوتے ہیں کیونکہ سبھی افراد اپنی محنت بیچ کر روزی کماتے ہیں اول الذکر کہ بورژوا طبقہ جبکہ دوسرے کو پرولتاری طبقہ کہا جاتا ہے۔ تمام سرمایہ داروں کا طبقاتی مفاد ایک ہی ہوتا ہے کیونکہ سبھی اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ فائدہ ملے۔ کم سے کم مزدور ملازم رکھے جائیں اور یہ زیادہ سے زیادہ کام کریں۔ انہیں کم سے کم تنخوادہ دی جائے تاکہ منافع کی شرح زیادہ سے زیادہ ہو۔ دوسری طرف پرولتاریہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ تنخواہ میں اضافہ ہو، بونس زیادہ ملے چھٹیوں کی تعداد بڑھے، اوقات کار میں کمی ہو۔ تعلیم، صحت اور رہائش وغیرہ وغیرہ کی سہولتیں ہوں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تمام خواہشات، سرمایہ دار کی خواہشات کے الٹ ہیں۔ اسے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ دونوں طبقات کا مفاد الگ الگ ہے۔اس لیئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں دو طبقے ہوتے ہیں ایک پرولتاری طبقہ اور دوسرا بورژوا طبقہ۔ طبقاتی مفادات میں تضاد کے بدولت ان کے درمیان طبقاتی کشمکش جنم لیتی ہے۔”

یہاں سائرس صاحب نے تیسرے طبقے یعنی پیٹی بورژوا یا مڈل کلاس کا ذکر نہیں کیا ہے، اس تناظر میں اگر مزید اور مختصر ہم تینوں طبقات پر بات کریں تو سرمایہ دارانہ نظام یا معاشروں میں انسانی سماج بنیادی طور پر دو واضح طبقوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک وہ طبقہ جو اقلیت پہ مشتمل ہے. ذرائع پیداوار کی ملکیت کا ’’حقدار‘‘ ہے، تمام ذرائع پیداوار اس کے زیرِتصرف ہیں اور وہ تمام پیداوار پر قابض ہے۔ اس کے بل بوتے پر عیش وعشرت اور اعلیٰ ترین زندگی گذارتا ہے۔ دوسرا طبقہ اس اکثریت پہ مشتمل ہوتا ہے، جس کی کوئی ذاتی ملکیت نہیں اور وہ اپنی محنت کو اجرت کے عوض ذرائع پیداوار کے مالک کو بیچ کر جینے کا مقدور بھر سامان کرتا ہے۔ اول الذکر طبقہ بورژوازی کہلاتا ہے اور موخر الذکر طبقہ پرولتاریہ کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک درمیان کا طبقہ بھی وجود رکھتا ہے، اس کو پیٹی بورڑوازی یا ادنیٰ بوژوازی یا مڈل کلاس کہتے ہیں۔

مڈل کلاس کے حوالے سے کچھ مفکرین کی آراء غور فرمائیں کیونکہ بلوچ قوم دانستہ و غیر دانستہ، شعوری یا لاشعوری مڈل کلاس مڈل کلاس کی رٹہ بازی، سنی سنائی باتوں کا محدود سطح پر ہی مگر چرچا ضرور کررہا ہے، طبقات کے طبقاتی جدوجہد کے پیغمبر و مفکر کارل مارکس پیٹی بورژوا یا مڈل کلاس کے بارے میں کہتا ہے وہ ممالک جہاں جدید تہذیب مکمل طور پہ ترقی کرگئی ہے. وہاں ایک نیا طبقہ وجود میں آیا ہے جس کو مڈل کلاس کہتے ہیں.‘‘ مارکس کا خیال تھا کہ مڈل کلاس کے کامیاب ممبران بورژوازی کا حصہ بن جائیں گے اور معاشی طور پر ناکام لوگ پرولتاریہ میں شامل ہوجائیں گے۔ مارکس مزید لکھتے ہیں’’ درمیانی طبقے یعنی مڈل کلاس کے لوگوں کا سر آسمان کی طرف اور پاؤں کیچڑ میں ہوتے ہیں۔‘‘

لینن کہتے ہیں کہ’’ پیٹی بورژوازی چھوٹی ملکیت کا مالک ہوتا ہے۔‘‘ ایک مزدور کی حیثیت سے مڈل کلاس کے مفادات پرولتاریہ کے ساتھ بھی جڑے ہیں، مگر ایک سرمایہ دار کی حیثیت سے اس کے مفادات بورژوازی کے ساتھ بھی ملحق ہیں۔ جوزف اسٹالن کہتے ہیں’’مڈل کلاس ہونے کی وجہ سے یہ طبقہ پرولتاریہ اور بورژاوازی کے درمیان لہراتا رہتا ہے۔‘‘ ہنگری کے ممتاز کمیونسٹ نظریہ دان بیلا کن کہتے ہیں کہ “روسی مزدور انقلاب کا پہلا اور اہم ترین اندرونی دشمن مڈل کلاس تھا۔” وہ مزید لکھتے ہیں کہ انقلاب فرانس میں پرولتاریہ کو روندھنے والی بورژوازی نہیں تھے، بلکہ یہ مڈل کلاس تھی جس نے پرولتاری حکومت کو ختم کیا۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں “بورژوازی کے ساتھ ہر طرح کا سمجھوتہ پرولتاری انقلاب کے ساتھ غداری ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد مڈل کلاس کے ساتھ ہر سمجھوتہ، بورژوازی کی دوبارہ حاکمیت کی جانب ایک قدم ہوگا۔ کامریڈ بیلا کن ان کو پرولتاریہ کے جسم سے چمٹی جونکیں قرار دیتے ہیں۔

البتہ بلوچ قوم میں طبقے کا کوئی وجود نہیں، نا ہی بلوچوں کا کوئی طبقاتی جنگ ہے، خالص قومی جنگ ہے اگر طبقہ ہے صرف اس وقت دو طبقے ہیں، محکوم بلوچ اور حاکم پنجابی پاکستان۔

دوسری بات طبقات کا ہمیشہ وجود پیداوار و ذریعہ معاش کے بدولت وجود میں آیا ہے، خاص کر قابل ذکر ایگریکلچرل پیداوار اور انڈسٹریل پیدوار ہیں تو بلوچستان میں ایگریکلچرل اور انڈسٹیریل پیداوار کا کیا پوزیشن تھا اور اس وقت ہے؟

اگر نواب و سردار، میر و معتبر، بورژوا طبقات ہیں، ان کا پیدواری ذریعہ کیا ہے؟ زراعت یا فیکٹریز؟ کچھ نہیں سوائے پاکستان کے ساتھ ملکر بلوچ قومی وسائل، ملکیت، تیل و گیس اور دیگر معدنیات کے لوٹ کھسوٹ کے ساتھ جنگی منافع خوری ریاست سے وظیفہ، مراعات، کرپشن، بھتہ خوری، اغواء، ڈاکہ زنی اس کے علاوہ پیٹی بوژواہ مڈل کلاس طبقہ بھی معاشی حوالے سے اچھا خاصا طبقہ ہوتا ہے، اس کے پاس بھی نوکر، مزدور اور رعایا ہوتے ہیں تو بلوچ قوم کے کس طبقے کے پاس یہ سارے چیزیں موجود ہے؟ اس حقیقت میں کوئی دورائے نہیں، آج پورا بلوچ قوم پرولتاریہ طبقے کی طرح زندگی گذار رہاہے بلکہ اس سے بھی بدتر مگر حاکم پاکستان ہے، ضرور بلوچوں کی بہت سے قبائلی، سیاسی، مذہبی سرکردہ بلوچ قوم کے استحصال میں پاکستان کے ساتھ برابر شریک ہیں یا قوم کی غداری اور دلالی کررہے ہیں؟ ان کا کوئی طبقہ نہیں پاکستان دشمن ہیں اور دشمن سمجھنا ہی چاہیئے۔

بلوچ سماج پورا سیکولر اور قومی سماج ہے، قبائلیت اپاہج اور مفلوج ہوکر اب صرف اور صرف پنجابی آکسیجن سے آخری سانسوں کی بنیاد پر چل رہا ہے۔

البتہ رد انقلابی، غیر انقلابی روایتی رویے اور مزاج موجود ہیں، جو قومی تحریک کے لیئے انتہائی نقصاندہ ہیں وہ رویے اور مزاج خدا کرے چرواہے یا بزگر میں ہوں، سردار میں ہوں، کسی میر و معتبر میں ہوں ان کو طبقات نہیں بلکہ غیر انقلابی اور ردانقلابی رویہ و مزاج کہنا بہتر ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔