لاپتہ بلوچ اسیران اور کھوکھلی ریاست
جویریہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچوں کی اغواء نما گرفتاری اور بلوچوں کے ساتھ ہونے والا یہ ظلم ان چند سالوں سے نہیں بلکہ اس ظلم کا آغاز 6 فروری 1976 سے شروع ہوا جب ریاستی اداروں کے ہاتھوں فرزند سردار عطا اللہ مینگل اپنے ساتھی احمد شاہ کے ہمراہ لاپتہ ہوئے۔
ایسے ہی بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ لاپتہ ہیں جن میں عورتیں، بوڑھے اور زیادہ تر تعداد میں بلوچ نوجوان شامل ہیں جن میں زرینہ مری،ڈاکٹر دین محمد، کبیر بلوچ، عطاء اللہ بلوچ، مشتاق بلوچ، ذاکر مجید بلوچ، سعد اللہ بلوچ، عنائیت اللہ چنگیز، ایڈووکیٹ منیر میروانی،غفار بلوچ، عامر بلوچ، جیہند بلوچ، شبیر بلوچ، زاہد بلوچ، شمس بلوچ اور ایسے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان لاپتہ ہیں یہاں پر کوئی اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے پر اغواء، تو کوئی اپنا فرض انجام دیتے ہوئے اغواء، کوئی سچ لکھنے پر اغواء، تو کوئی اپنے درد کو شاعری میں بیان کرکے اغواء، کوئی گہری نیند میں سوئے ہوئے وطن کی مستقبل کا خواب دیکھنے پر اغواء، تو کوئی مستقبل کے معماروں کو درس دینے پر اغواء، گھر کی چار دیواری میں رہنے والی عورتیں بھی اغواء۔
بلوچستان میں رہنے والے کسی بھی شخص کی جان محفوظ نہیں، لاپتہ افراد کی فہرست میں زیادہ تر پڑھے لکھے لوگوں کا نام ہے، جن میں ذیادہ تر بلوچ طلباء، سیاسی کارکنان، ڈاکٹرز، وکلاء، اساتذہ، شاعر و ادیب، انجینئرز شامل ہیں انکی اغواء نما گرفتاری یہی ظاہر کرتی ہے کہ ریاست بلوچستان کو خوشحال اور علمی و فکری طور پر ترقی یافتہ دیکھنا نہیں چاہتا اور ریاست نے ہمیشہ ہی سے بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہے۔ ریاست جو کہ نالی میں گری ہوئی سوئی کو بھی ڈھونڈ نکال سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہی ریاست ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کی بازیابی میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ اسکو بلوچ ریاست کی ناکامی سمجھیں یا پھر ریاست کی غفلت اور اُن کے بلوچ کُش پالیسیوں کا حصہ سمجھیں۔
دنیا میں پاکستان کی ریاست ہی وہ ناکام ریاست ہے جہاں انسان محفوظ نہیں، حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر مکمل پابندی ہے لیکن کھوکھلی ریاست کے تمام ادارے عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کمبل اوڑھ کر سوئے ہوئے ہیں، جس سرزمین کے وسائل کیلئے ہر کوئی بے چین ہے، اسی سرزمین کے لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے اذیتیں برداشت کر رہے ہیں۔ کبھی سخت سردی میں کوئٹہ سے اسلام آباد لانگ مارچ کی صورت میں تو کبھی کوئٹہ کی سخت سردی میں کیمپوں کی صورت میں۔ سپریم کورٹ رجسٹری کے جھوٹے تسلیاں اور کمیشن کے جھوٹے دعوے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سب بلوچستان کیلئے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کو بچانے اور دوسرے ممالک کے سامنے ایک دکھاوا ہے۔
بلوچستان کے گھر گھر میں ماتم ہے، ہر گھر سے دو،تین اور کہیں کہیں تو پورا گھر خواتین سمیت لاپتہ ہے، لاپتہ بلوچ کلی کیمپوں میں اذیت کا شکار ہیں تو دوسری جانب انکے لواحقین بھی اسی اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں جن بچوں کے ہاتھوں میں کھلونے ہونے چاہیے تھے انہی بچوں کے ہاتھوں میں آج انکے پیاروں کے تصاویر دکھائی دیتے ہیں اور بلوچ اب یہ جان چکے ہیں کہ ریاست ہر صورت کھوکھلی ہو چکی ہے، جسکی وجہ سے وہ پاکستانی ریاست کو اپیل کرنے کے بجائے بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔