دو دہاری تلوار – نادر بلوچ

266

دو دہاری تلوار

نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دوستی و دشمنیوں کی ہزاروں کہانیاں لیئے ہوئے انسانیت محبت، بقاء باہمی کے لیے کروڑوں سالوں سے نبردآزماء ہے۔ قوموں کی وجود میں آنے کے بعد یہ قومی سطح پر منظم ہوکر مختلف صلاحیتوں پر مشتمل افراد جہد کے مقصد کو حاصل کرنے میں جٹ جاتے ہیں۔ جن میں کسان، دہقان، دانشور، جہدکار، شعراء، سیاسی و سماجی کارکن تنظیمیں سر فہرست کردار ہوتے ہیں، جو قومی منزل کا تعین اور خوشحالی کیلئے راستے اور کرداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ کھٹن اور مشکلات سے پر، تکلیف، قربانیوں، سازشوں، کاونٹر حکمت عملیوں،دشمن کی بے رحم چالوں، وقت و حالات کے انتخاب اور ایک ہی وقت میں دو دہاری تلواروں، اور دو سر والے سانپوں سے کامیاب پنجہ آزمائی ہی کامیابی کو مقدر بناتی ہے۔ مگر تب تک ہشیاری اور باریک بینی سے شطرنج جیسی چالوں پر نظر رکھ کر ہی قومیں اس پل صراط سے پار ہوتی ہیں۔

بلوچ قومی تحریک نہ صرف بلوچ قوم کو خوشی اور کامیابی کی نوید سناتی ہے بلکہ جنوبی ایشاء میں محکومی اور مظلومیت کی داستان لیئے ہوئے کروڑوں انسانوں کو بھی امید سحر دلاتی ہے۔ اسکی روشن صبح پہاڑوں، صحراوں، ندی نالوں میں سرخی مائل رنگت، جہد کی ہزاروں کہانیاں لیکر سربکف، جذبہ ایثار، اخوت بھائی چارے کا پیغام دیکر قومپرست نظریات کا پرچار اور درس دیتے ہوئے شہداء وطن کے صفوں میں شامل ہوچکی ہیں۔ فلسفہ آزادی و قومی خوشحالی کو بیان کرتے ہوۓ بلوچ قوم اور جہد کار واضح سمت اور رستے سمیت مختلف ذرائع کو قومی تحریک کے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ہمگام و ہمسفر ہونے کا فیصلہ دے چکے ہیں۔ قومی تحریک کے طویل تجربات و مشاہدات، بزرگ و معتبر رہنماوں کے صبر آزماء جہد و جہد اور حکمت عملیوں اور مقصد پر غیر مبہم طریقہ کار اور قومی آجوئی کو ہی قومی خوشحالی و قومی وجود، ننگ و ناموس کی حفاظت، زندگی کی قدر و منزلت،قومی شناخت کو قائم رکھنے کیلئے قوم پرستی و نیشنل ازم کے دائرے میں رہ کر ہی بلوچ قومی فکر کو روشنی و آزادی کا منبع بنانے کیلیے ضروری اور حتمی قرار دیا ہے۔

آج بلوچ قومی تحریک جس طرح خطے میں بسے مظلوموں، سیاسی و سماجی شعور رکھنے والی کارکنوں، جہد و عمل پر یقین رکھنے والی دیگر اقوم کی نظریات و انسانیت کی سربلندی کیلئے برسرپیکار تنظیموں کیلئے حوصلے و جذبے کی مثال بن چکی ہے تو دوسری جانب من حیث القوم بلوچ قوم کی آسودگی، خوشحالی و نیشنل ازم کی بنیاد پر آزادی و خطے میں ایک بلوچ ریاست کے قیام نے سامراجی ممالک سمیت انکے یہاں پر مفادات و نظریات کی چوکیداری و پیروی کرنے والی گروہوں اور نیشنل ازم کی سوچ سے بغاوت اور انکار کرنے کے ساتھ بلوچ قومی تحریک کو زیر کرنے کیلئے بلوچ دشمن اداروں اور قابض ریاست سے ساز باز کرچکی ہے۔ اسوقت بلوچ قوم، سیاسی و سماجی تنظیموں، کارکنوں کو بلوچ، آزادی و انسانیت دشمن قوتوں کی جانب سے دو دہاری تلوار سے حملہ آواروں کا سامنا ہے۔ قومپرست، سوچ و فکر کو ختم کرنے کیلئے ریاست شمشیر زنی سے لیکر قتال کا بازار سجا کر، ہزاروں شہداء و معصوم نوجوانوں کی غیر انسانی جبری گمشدگیوں سمیت بلوچ قومی تحریک کے سامنے جو ستر سالہ خوف و وحشت سے بندھ باندھنے کی کوشیش کی تھی، وہ اب مکمل نیست و نابود ہوچکی ہے۔ جس نے طاغوتی قوتوں کو اپنے لنگڑی لولی، سوار اور پیادوں کو بلوچ وطن اور سماج پر مکروہ حملہ کرنے کیلئے متحرک کیا ہے۔

جسمانی غلامی اور ذہنی غلامی کو مختلف کیپسول و فرسودہ سوچ و نظریات کی آڑ میں بلوچ جہد کار سیاسی و سماجی کارکنوں کی ذہنوں میں ڈال کر سوچ و سمجھنے کی صلاحیتوں کو مفلوج بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچ قوم اور سماج میں ایسی اصطلاحات کو متعارف کیا جارہا ہے تاکہ سماجی اور سیاسی بنیادوں پر بلوچ قوم پرستی کی بنیاد پر بننے والی قومی یکجہتی و سوچ کو نقصان دی جاسکے۔ طریقہ کار پر اختلافِ رائے کو منفی بنا کر نظریاتی طور پر بلوچ نوجوانوں کو ایک دوسرے کی سوچ و فکر سے الگ کی جاسکے۔

قومپرست قوتوں کے خلاف شدید ریاستی رد عمل نے ان دو سرے اژدھاوں کو بلوچ سماج اور نوجوانوں کی ذہنوں سے کھلواڑ کرنے کا موقع دیا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اگر ایک سیاسی و سماجی کارکن پر امن رہے گا تو اسے ریاستی جبر کا سامنا نہیں ہوگا۔ یا قابض کی اس آئین کے مطابق حقوق مانگو گے تو دیئے جائیں گے۔ یا فلاں تنظیم اور لیڈرشپ پر امن ہے اور فلاں نہیں ہے۔اب یہاں کوئی ان بے عمل اور فرسودہ ریاستی کرداروں سے پوچھے کہ بلوچ کب پر امن نہیں رہا ہے؟ یا بلوچ کے لیئے امن کوئی معنی نہیں رکھتا، جو ستر سالوں سے ریاستی جبر کے ذریعے اپنی نوجوانوں، بزرگوں، بچوں، عورتوں کی لاشیں وصول کرتی آرہی ہے۔ اس قوم کو امن کے معنی سے آشناء کی جارہی ہے جس پر ریاست ایف سولہ طیاروں سے بمباری کرتی ہے؟ بھیڑ بکریوں، کو ریاستی ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ کر کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہیں۔ ردعمل میں بلوچ اپنی جان کی حفاظت کیلیئے ایک پتھر کا سہارا بھی نہ لے اور آہن و آتش کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے سینے کو چھلنی کروا دے تو اس آئین کی پاسداری ہوگی جسکو خود فوجی اور ریاستی حکمران ہر دو دن بعد بوٹوں اور حرص تلے روندھتے آرہے ہیں۔

ریاستی عقوبت خانوں میں موجود ہزاروں طلباء، مزدور، کسان کیا امن پسند نہیں تھے؟ جو گذشتہ بیس سالوں سے غائب ہیں۔ امریکہ پر القائدہ کے حملہ کے بعد گرفتار ہونے والے سینکڑوں مجرم سزا پا کر رہا ہوکر گھروں کو جاچکے ہیں اور بلوچ قوم کو مسخ شدہ لاشوں کا ڈھیر بنایا جاتا ہے۔ قابض ریاست اور فوج دنیا کے کس قانون و آئین کے تحت کررہے ہیں؟ کیا یہ آئین اسکی اپنی شہریوں کو زندگی کا حق دلاسکی ہے، جسکے سرکاری ادروں کے افسران ٹارگٹ کلنگ، انکاونٹر اسپیشلسٹ ہوں۔ جہاں لاشیں گرانے والے کو ترقی دی جاتی ہو۔ دہشتگرد، جنگ پرست خود ریاست ہے نہ کہ مظلوم بلوچ عوام، ایک بندے کو سالوں سے غائب کیا جائے، ایک طالب علم کو کالج اور اسکول جاتے ہوئے ادارے جبری طور پر لاپتہ کریں اور پھر فیملی اور نام نہاد تنظیمیں یہ مطالبہ کریں کہ اگر مطلوبہ شخص جو خود ظلم و زیادتی کا شکار ہوکر اس غیر انسانی عمل کا سامنا کر رہا ہے، اسکو کسی جرم کے تحت عدالت میں پیش کیا جائے؟ اسکول و کالج جانے کیلئے؟ مزدوری پر جانے کیلیے، ہسپتال و کسی سرکاری محکمے میں ڈیوٹی کرنے کی جرم میں مجرم ہو جاتے ہیں اور سالوں، مہینوں غائب رہنے کے بعد بھی انکو انکا جرم نہ بتایا جائے۔ ایسی قوم آئین کو مانیں۔امن کے گیت گائیں۔ سیاسی اور پرامن جہد کی تاویلیں پیش کریں؟ مشین گن اور توپ چلانے والوں کو اپنا موقف سنائیں؟ الٹی لٹکتی ہوئی لاشیں اپنی بے گناہی کس جج کے سامنے بتائیں۔

ریاستی جبر، استحصال، بربریت، ہزاروں انسانی زندگی نگل کر مٹی کا ڈھیر بناچکی ہی لیکن بلوچ قوم کی جانب سے مسلسل انکار، استقامت و نوجوانوں رہنماوں کی نسل در نسل قربانیوں، کاوشوں نے اس تحریک کو قومپرستی کی مظبوط نظریاتی بنیاد فراہم کی ہے، جسکی وجہ سے آج ہزاروں بلوچوں کے دل ایک دوسرے کیلئے دھڑکتے ہیں۔ اسی تعلق اور رشتے سے بلوچ ایک دوسرے کے درد پر کراہ اٹھتے ہیں اور اب ہر باشعور بلوچ اس منزل کی جانب گامزن ہے، جسکی سورج آزادی کی صورت میں طلوع ہوگا۔ تقسیم، طبقہ، جبر اور دہشت تاریک راہوں میں کھو جائیں گی۔ شہداء اور اسیروں کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔