نیشنل ازم، طبقاتی کشمکش اور بلوچ قومی تحریک
لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نیشنل ازم میں طبقات اور طبقاتی کشمکش کی گنجائش موجود نہیں ہے، نیشنل ازم طبقات کے تمام طبقاتی حیثیت کو ختم کرکے اُنھیں ایک ہی لڑی میں پروتا ہے، متحد کرتا ہے اس کے علاوہ دوسرے تمام نظریات میں طبقے آپس میں تقسیم ہیں، حتیٰ کہ مذہب بھی انسانوں کو تقسیم کرتی ہے، مسلم اور غیر مسلم کا نظریہ اسلام میں اس تقسیم کی بنیادی وجہ ہے، اس طرح سوشلزم بھی انسانوں کو طبقات میں تقسیم کرتی ہے، سرمایہ دار اور مزدور و محنت کش کی بنیاد پر یہاں بھی انسان تقسیم ہے اگر کوئی تحریک اسلامی نظریات کی بنیاد پر ہے تو وہ صرف مسلمانوں کے مفادات اور اُنکی مذہبی رسومات کی تحفظ کرتی ہے اور سوشلزم مزدور کے مفادات کو تحفظ دیتی ہے، اس نظام میں دوسرے طبقات کے مفادات کو کوئی تحفظ میسر نہیں ہے اور سوشلزم طبقاتی کشمکش کو پروان چڑھاتی ہے، مزدور کی کشمکش سرمایہ دار سے ہے، بھوکے کی کشمکش بھوک اور افلاس سے ہے اور وہ صرف بھوک کو مٹانا چاہتی ہے، مزدور سرمایہ دار سے برابری کی بنیاد پر حقوق چاہتا ہے، یہ ایک نظام ہے جو آزاد منش اقوام اپنا سکتے ہیں اور وہ برابری کے بنیاد پر زندگی گزار سکتے ہیں۔ سوشلزم ایک اچھا نظام ہے لیکن بلوچ کا سر درد سوشلزم نہیں ہے۔
بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قوم کا مطالبہ اس سے یکسر مختلف ہے، بلوچ اپنی کھوئی ہوئی آزادی کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور بلوچ قوم و تحریک کو نیشنل ازم ہی متحد و منظم رکھ سکتی ہے اور اس نظریے کی بنیاد پر بلوچ سرزمین کی تحفظ اور آزادی کے لئے تمام بلوچ طبقات سے بالاتر ہوکر جدوجہد کررہے ہیں بلکہ طبقات کے علاوہ تمام مذاہب کے لوگ تحریک آزادی میں شامل ہیں، نیشنل ازم ہی ہے جس نے نمازی اور ذکری کے نفرت کو ختم کرچکا ہے اور نمازی و ذکری ایک ہی مورچے میں بیٹھ کر جنگ لڑ رہے ہیں اور نیشنل ازم ہی ہے کہ ایک سردار اور ایک عام بلوچ ملکر لڑ رہے ہیں اور ایک ہی مورچے میں وطن کی آزادی کے لئے جام شہادت نوش فرماتے ہیں۔ اُنکی آپس میں کوئی طبقاتی ٹکراؤ نہیں ہے۔
بالاچ مری اور ایک عام مری بلوچ ایک مقصد کے لئے خون بہاتے ہیں، اُن میں کوئی طبقاتی کشمکش نہیں ہے کیونکہ وہ نیشنل ازم کی بنیادی روح سے واقف ہیں، بلوچ کا طبقاتی کشمکش قبائلی سردار، سرمایہ دار سے نہیں ہے بلکہ بلوچ کا کشمکش قابض سے ہے اور یہ کشمکش طبقاتی نہیں، رنگ و نسل کی نہیں ہے اور نہ ہی مذہبی ہے بلکہ یہ کشمکش غلام اور آقا کی ہے، مظلوم اور ظالم کی ہے، مقبوضہ اور قابض کی ہے، بلوچ کا مسئلہ غلامی سے آزادی کی ہے اب کچھ لوگ دیدہ دانستہ اس مسئلے کو طبقاتی رنگ دیتے ہیں، کبھی اپنے خیالات کو سوشلزم کی پوشاک میں لپیٹ کر بلوچ قوم کو کنفوز کرتے ہیں، کبھی مذہبی لبادے میں اوڑھ کر بلوچ تحریک کو کوئی اور رخ دینے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ جب ایک ہی نظریے کی کتابیں مطالعہ کرکے تحریک کے سمت کا تعین کرنے کی کوشش کیجائیگی، پھر قوم آپس میں تقسیم ہوگی۔
اب دیکھا جائے روس پر کوئی بیرونی حملہ آوار قابض نہیں تھا بلکہ زار شاہی کے ظلم و جبر اور سرمایہ دارانہ نظام سے اکتا چکے تھے، وہ سرحدی تقسیم نہیں چاہتے تھے بلکہ نظام کو بدلنا چاہتے تھے، زار کا تختہ الٹنا چاہتے تھے، وہاں مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان کشمکش تھا اور روس کا سماج دو طبقوں میں بٹ گیا، سرمایہ دار، مل و فیکٹری مالکان اپنے سرمایے کی تحفظ کے لئے مزدوروں کے قتل عام کا آغاز کیا اور مزدور اپنے تحفظ کے لئے سرمایہ داروں کے خلاف متحد ہوگئے، وہ دولت کی پیداوار اور تقسیم برابری کی بنیاد پر چاہتے تھے لیکن بلوچ کا جھگڑا پاکستان سے دولت کی پیداوار اور تقسیم میں برابری کے لئے نہیں ہے بلکہ دولت کی یکطرفہ لوٹ مار اور ساحل و وسائل اور سرزمین پر بزور طاقت قبضے کے خلاف ہے ۔ اب اگر یہ کہہ کر بلوچ سماج میں طبقات بنائی جائیں کہ پوری دنیا میں طبقاتی کشمکش، ٹکراو اور تقسیم موجود ہے لہٰذا بلوچ قوم میں بھی یہ تقسیم ضروری ہے، تو یہ کوئی قابل قبول دلیل نہیں ہے، نہ ہی عقل و فہم اس دلیل کو تسلیم کرتی ہے۔
اگر اب اس جنگ میں قوم کو طبقات میں تقسیم کیا جائے پھر یہ دیکھا جائے اس طبقاتی تقسیم میں فائدہ کس کا ہے اور نقصان کس کا ہے میری ناقص رائے کے مطابق فائدہ پاکستانی ریاست اور نقصان بلوچ قومی تحریک کی ہی ہوگی کیونکہ طبقاتی تقسیم کی آڑ میں ایک پورے طبقے کو پاکستان کی جھولی میں ڈال کر اُسکی جبری قبضے کو مزید دوام بخشا جائے گا۔
جہاں تک قبائلی نظام کا سوال ہے، یہ نظام اب کمزور پڑ چکا ہے بلکہ سردار عطاء اللہ خان مینگل جیسا ایک مضبوط قبائلی سردار کہہ رہا ہے کہ سرداری اور قبائلی نظام زائد المیعاد ہوچکی ہے، اس کا خاتمہ ضروری ہے لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوسکے گا، جب بلوچ ایک آزاد و خود مختیار بلوچستان کے مالک بنیں گے اور وہ بلوچستان کو چلانے کے لئے ایک نظام متعارف کرائیں گے۔ بالفرض اب یہ نظام ختم بھی ہو بلوچ قبائلی نظام سے نکل کر پاکستان کی آئینی و قانونی نظام کا حصہ ہونگے اور یہ سب کیا دھرا بھی پاکستان کا ہی ہے، پاکستان اپنی مفادات کی تحفظ کے لئے اپنے سرداروں کا ایک فوج بنا رکھا ہے، اب اس موجودہ وقت اور صورتحال میں اگر بلوچ اپنی توانائی قبائلی و سرداری نظام کے خلاف استعمال کریں تو بھی فائدہ قبضہ گیر ہی کو ہوگا اور بلوچ کی قوت مزید تقسیم و منتشر ہوگی بلوچ قوم کو اس وقت اپنی تمام تر توانائی قبضہ گیریت کے خلاف استعمال کرنی چاہیئے کیونکہ یہ جتنی گند ہے یہ اس کی پیدا کردہ ہے ریاستی سرداروں سے لیکر ریاستی ملاؤں تک یہ سب پاکستان کے پیداوار ہے، اُس کے نظام اور زنگ آلود مشینری کا پرزہ ہے، بلوچ پاکستان سے آزادی حاصل کریں تو فرسودہ مذہبی اور قبائلی نظام سے بھی خود بخود چھٹکارا حاصل کرینگے۔
بلوچ قومی تحریک اس وقت جس نازک دور سے گذر رہا ہے، ایسے میں نہ ہی طبقاتی تقسیم کی متحمل ہوسکتی ہے نہ ہی قبائلی ٹکراو کی، اس وقت بلوچ قوم کو اتحاد و یکجہتی کی اشد ضرورت ہے، تحریک کی کامیابی کے لئے ضروری ہیکہ بلوچ قوم کے تمام طبقات کو متحد ومنظم کرکے جدوجہد کو آگے بڑھائیں ہماری کامیابی اتحاد و اتفاق اور یگانگت میں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔