ضیاء ایک حوصلہ، ٹک تیر ایک امید ۔ بانڑی بلوچ

265

ضیاء ایک حوصلہ، ٹک تیر ایک امید

تحریر۔ بانڑی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے وجود کو اربوں سال گذرے ہونگے، پھر اس پر انسان کے وجود کو بھی صدیاں ہو چکی ہے، انسان وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا، جنگلوں سحراؤں سے نکل کر میدانوں میں آباد ہوا اور یوں سفر طے کرتے کرتے انسان اپنی ترقی کے عروج تک پہنچا اور آج دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے، جہاں انسان اپنی زندگی یہاں تک کے سانسوں پر بھی دسترس حاصل کر چکا ہے اور اس سفر کو انسانی علم اور شعور کہا جاتا ہے۔

شعور انسان کو علم کی جستجو میں لگا کر اسے تخلیق کار بنادیتا ہے اور انسان ہر طریقے سے تخلیق کرکے یا تو چاند کو پہنچ جاتا ہے یا تو اپنے اندر پڑے احساس اور فضول ڈھانچے کے وجود کے مقصد کو پہچان لیتا ہے، اس زندگی کی دوڑ میں ہر کوئی کچھ نہ کچھ حاصل کرکے اسکی وصول کی جستجو سے جڑ جاتا ہے۔

ایسا ہی شعور اور نظریہ کچھ لوگوں میں اپنے اندر کے احساس کو پالنے اور اسے خود پر ہونے والے نا انصافی کے خلاف تیار کرنے کا ہنر تاریخ میں کئی لوگوں میں رہا ہے، جن کی داستانیں آج تک قائم ہیں کہ کیسے وہ اپنے شعور کو نظریئے کی شکل دیکر اسے احساس میں ڈھال کر لوگوں میں منتقل کرتے رہے اور انقلاب برپا کرگئے.

یہی وہ شعور ہے، جس سے اپنے لوگوں کو روشناس کرانے کا بیڑا لیئے ایک لاغر بدن، بلند حوصلہ، سر سے اپنے سے کئی گنا بڑے پہاڑ کو توڑنے کی جستجو لیئے نوجوان اپنی تعلیم، گھر، دوست چھوڑ کر نکل پڑا اس جانب اور چلتے چلتے رستے میں کئی شمعیں روشن کرگیا اور یوں آخری سانسوں تک لڑتے ہوئے وہ روشن ستارہ بن گیا اور آج بھی اپنے جلائے شمعوں پر نظر رکھے انہیں تربیت کررہا ہے۔

ضیاء ایک حوصلہ ہے، حوصلہ اس کمزور سوچ کو مضبوط بنانے کا، جو بے شعوری میں دشمن کی چالبازیوں کا شکار ہوجاتی ہے، ضیاء اسے شعور دیکر ایک الگ سمت دے دیتا اور وہ یوں چلتا ہوا ایک سمندر بنتا ہے، ضیاء ہمیشہ ضیاء پیدا کرتا رہا جو چل کر دلجان بنینگے اور ضیاء کی پھیلائی ہوئی اس روشنی کو ضیاء کے طرح دشمن کے لیے اندھیرے کا سامان بنا لیں گے۔

ٹک تیر ایک امید ہے امید آنے والے کل کی امید، آنے والے فتح کی امید، دشمن پر قہر بننے کی امید، جھالاوان میں تحریک کو پھر سے زندہ کرنے کی امید، ملغوے میں اس بوڑھے صنوبر کی امید، بہن شہناز زہری کی گاؤں کی امید، ہر لکھے قلم کی جسے ضیاء سمیت دیتا امید گاؤں میں نکلنے والے ہر صبح کی سورج کی پہلے کرن کی جس کے ساتھ ہی ضیاء خشک پڑے صحراؤں کو شعور دینے نکل پڑتا۔

ضیاء خود میں ایک مکمل کامیاب رہنمائی دینے والا استاد تھا، ہر وقت ہرکسی کی تربیت کرتا کسی کو قلم سے لکھنے کا ہنر دیتا تو کسی کو پڑھنے کی تلقین کرتا نا خود کبھی آرام کرتا نا کے کسی کو آرام کرنے یا کہ خود کی ذمہ داریوں میں کوئی کوتاہی کو برداشت کرتا، وہ جب آنلائن ہوتا تو سب کو کوئی نا کوئی زمہ داری سونپ دیتا اور خود کسی نئے دوست سے ملنے نکل جاتا اور یوں وہ سحرا سحرا چل پڑتا ہر طریقے سے اپنے دوستوں کی تربیت کرتا رہا.

وہ سکھا گیا جب اس نے تراسانی کے میدان میں لڑتے ہوئے اپنے ہر ایک گولی کا حساب رکھا اور بتایا کے ہمارے مقصد سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں اور اس قول کے ساتھ جوڑ گیا کے آخری گولی تک منزل کی حصول جاری رہیگی اور یوں دشمن کے ہاتھ میں آکر دوست اور تنظیم کے لئے نقصان بننے سے شہادت کو ترجیح دی اور امر ہوگیا-

ضیاء کی شہادت بہت کچھ سکھا گیا، اسنے سکھایا کہ وقت کا تقاضہ ہے کاہلی اور کمزوریوں سے نکل کر خلوص نیت سے اپنے مقصد پر ڈٹے رہو، چاہے اس میں تمھیں موت آئے پر وہ موت اپنی سرزمین پر آخری سانس تک دشمن کے خلاف جہد میں نکل جائے، اسنے بتایا کمزوریاں اور بہانے ہزار رکھنے والے خود کو دھوکے میں رکھ کر اپنے مقصد اور مادرِ وطن سے دغا کر بیٹھتے ہیں

میں یقین سے کہتی ہوں، آج ضیاء نہیں پر ضیاء کی دی ہوئی تربیت نے اسکے دوستوں کو اتنا مظبوط کردیا ہے کے وہ ضیاء کے طرح نکل پڑے، اسکے قدموں کے نشان تلاش کرنے اور وہ یہ مانتے ہیں کے ضیاء شاہموز کے چوٹی پر بابو نوروز کے ساتھ کھڑا ہوکر ہمیں دیکھ رہا ہے، ضیاء بابو نوروز کو بتا رہا ہے کے میرے دوست میرے دیئے ہوئے راہ پر نکل پڑے ہیں، اس خلوص و نیت کے ساتھ جس کی مجھے امید تھی اور بابو نوروز اسکے پیٹ پر تھپکی دے کر اسے داد دے رہا ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔