ایک ہاتھ میں لاٹھی دوسرے میں گاجر ہے
تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اختر جان مینگل نام نہاد قوم پرستی اور منافقت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اس کا ثبوت اس کا پاکستانی پارلیمنٹ سے چمٹے رہنا اور بلوچ کی حق حاکمیت کیلئے روڈ نالی اور سڑکوں کے جال بچھانے کے نعرے کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھ کر نعرہ بلند کرنا شامل ہے۔ اور اسی نعرے کو اسکے پارٹی کا منشور ہی ماناجاتاہے۔ ہم بلا جھجک کہہ سکتے ہیں کہ موصوف بلوچ سیاست کے ایسے نرم دل (لالچی) سردار مانے جاتے ہیں کہ وہ نرم دلی کے باعث نہ پاکستانی پارلیمنٹ کو خیر آباد کہہ سکتے ہیں، ناہی بلوچ عوام کو بے وقوف بنانے سے باز آسکتے اور دستبردار ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مینگل میڈیا سمیت لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کیلئے کبھی لشکرے بلوچستان کا نعرہ بلند کرتے ہیں، تو کبھی پاکستان کے ساتھ وفاداری کے سبب اتنی گہرائی میں چھلانگ لگاتے ہیں کہ واپسی مشکل بن جاتی ہے۔ یہ کام وفاداری کے سبب وہ ایسے آسانی سے کرتے اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ گویا قابض کیلئے ڈرائیو کرنا اور ماں دھرتی کے سینے پر ایٹمی دھماکہ کروانا کوئی بڑی بات نہیں۔
اس مدعاکو سمجھنے اور پرکھنے کیلئے ہم شتر مرغ کا مثال لے سکتے ہیں، اگر اڑنے کو کہا جائے تو وہ اونٹ جب بوجھ اٹھانے کو کہیں تو پرندہ بن جاتاہے، گویا وہ اپنے اندر بیک وقت دو خصلتیں پال رکھے ہوئے ہے۔ اس حساب سے اختر جان بھی انفرادی طورپر شتر مرغ کی طرح خوش قسمت ہیں، وہ بھی دومنصب کے مالک ہیں اوراپنے باپ اور بھائی کے موجودگی میں وہ منصب حاصل کرچکے ہیں، یعنی باپ زندہ سلامت ہونے کے باوجود وہ سردار زادے کہلانے کے بجائے سیدھا سردار اور بڑے بھائی کے ہوتے ہوئے میر کہلانے کے بجائے سردار ہی کہلائے جاتے ہیں۔ اگر سرداروں کی دستاری روایت پر نظر ڈالی جائے تو باپ کے وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا ہی سردار ی کے بگڑی کا حقدار ٹہرجاتاہے، مگر یہاں دونوں رشتے نفس بنفیس زندہ موجود ہونے کے باوجود ہی وہی مینگل قبائل کے سردار اور دستار کے مالک ہیں۔
واقعی کہتے ہیں جب اللہ پاک دیتا ہے تو چھت پھاڑ کے، مگر جب لیتا ہے تو۔۔۔۔۔پھاڑ کریہاں خاندانی حوالے سے وہ خوش قسمت ٹہرجاتے ہیں، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہیں اللہ پاک نے چھت پھاڑ کر یہ منصب عطاکی جب بلوچ سیاست جہد آزادی بابت بات کی جائے تواس میدان میں وہی فکر یاد پڑتا ہے کہ اللہ پاک لیتا ہے تو ۔۔۔پھاڑکر یہاں اختر جان لاکھ کوشش کریں اشک بہائیں مگر ان کے آنسو مگر مچھ کے آنسو مانے جاتے ہیں۔
ویسے ایک منٹ کیلئے لطیف بلوچ کے سوچ کو ایک طرف رکھ کر غیرجانبدارانہ سوچیں تو اختر جان کے آنسو واقعی مگر مچھ ہی کے نہیں ہیں؟ یہ تمام باتیں اپنی جگہ ہمارا مدعا فالحال لطیف بلوچ کے صفتی کالم ’’اختر مینگل کے موقف کے تناظر میں ‘‘ ہے۔ جس میں موصوف اختر مینگل کے بارے میں بلوچوں سے گلہ دارہیں، یعنی جن جن سیاسی آزادی پسند رہنماؤں، تنظیموں کے کارکنوں یا سوشل میڈیا سے جڑے افراد نے تعمیری تنقید کی تھی، انکو نیچا دکھانے کیلئے اپنے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے اختر جان مینگل کے اس موقف کو ردکیاہے کہ بلوچ خواتین اپنے اپنے پیاروں کیلئے لگائے گئے احتجاجی کیمپ کو ختم کریں کیونکہ انکے بھائی اختر جان زندہ ہیں۔ اسی طرح صفتی کالم نگارنے اختر جان کے اس تجویز کو مدلل اور وزن دار پیش کرنے کیلئے نواب خیر بخش مری کے اس اپیل کا حوالہ دیتے ہیں کہ جب انہوں نے تا مرگ بھوک ہڑتال کرنے والے عبدالطیف جوہر سے اپنا بھوک ہڑتال یہ کہہ کر ختم کرنے کو کہا کہ’’ ریاست بے حس ہے آپ اپنا فیصلہ واپس لیں ‘‘۔
موصوف کا شکوہ ہے کہ جب اختر جان نے خواتین کو علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ ختم کرنے کو کہا، تو تمام بلوچ آزادی پسندوں نے ایک زبان ہوکر اختر جان کے اس تجویز کو کیوں مسترد کیا؟ لطیف بلوچ آپ کے صفتی کالم کے صرف دوہی پوائنٹس پر بات کی جائے تویہ الگ اور ایک دوسرے سے کوسوں دورمعلوم ہوتے ہیں۔ اختر جان نے خواتین سے یہ کہاکہ آپ اپنا احتجاج ختم کریں کیونکہ آپ کے بھائی زندہ ہیں۔ تو یہاں خواتین تامرگ بھوک ہڑتال پر نہیں تھیں، جبکہ لطیف جوہر تا مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔اور نواب مری نے لطیف جوہر کو یہ نہیں کہاکہ ہم(خیربخش) زندہ ہیں، آپ بھوک ہڑتال ختم کریں لیکن اختر جان یہاں اپنے زندہ ہونے کا احساس خواتین کو دیتے ہیں، مطلب یہ کہ وہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ خواتین صنفی لحاظ سے کمزور ہیں اور ہم مردہی ہر چیز کرسکتے ہیں، انھیں چاردیواری کے اندر بند ہونا چاہیئے۔ اگر یہ بات نہیں تو بھی اس کے اس بات پر ہمیں شرمندگی ہوتی ہے کہ وہ اس مقدس جگہ پر کیوں جھوٹ بولتے ہیں کہ آپ کا بھائی زندہ ہے، آپ فالحال گھر بیٹھیں آپ لوگوں کو احتجاج کی ضرورت نہیں۔ لطیف بلوچ ہم حیران ہیں کہ اختر جان کے نزدیک زندگی کس چڑیا کا نام ہے اور وہ اب تک پاکستان کے ناپاک پارلیمنٹ اور بلوچ مسنگ پرسنز کے مقدس کیمپ کا فرق کیوں نہیں کرپاتے؟ وہاں جھوٹ بولنا منافقت کرنا حلال تو یہاں ماں بہنوں کے ساتھ جھوٹ اور منافقت کے ساتھ ساتھ مگر مچھ کے آنسو بہانا حرام ہے۔ وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم اس وقت زندہ نہیں رہے، جب ہمارے ضمیر نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ جس کی وجہ سے دشمن ستر سال سے ہمارے دھرتی ماں پر قابض ہوکر اسکے پیٹ کو چاک کرکے اسکے وسائل بے دردی اور تیزی سے دنیا کے دوسرے گدھوں کے ساتھ مل کر نوچ رہاہے۔
آئے روز ہمارے گھروں پر بمباری ہورہی ہے۔ ہمارے نوجوان بزرگ حتیٰ کہ پاک دامن ماں، بیٹیاں اوربیویاں غائب کی جارہی ہیں انکے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جارہاہے، ہزاروں مرد، خواتین، فوج اور اس کے مقامی دلالوں کے ذریعے شہید کیئے اور اٹھائے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود ہم دشمن کے گود میں بیٹھ کر دانت دکھاتے ہوئے ان سے التجا کرتے ہیں کہ کم سے کم ہمارا نہیں اپنے ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کا سوچو اور ہم یہ نکتہ کہ پنجابی ہمارے زمین سے نکل جاؤ رکھنے بجائے اس کو دانت دکھاتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو لاپتہ نہ کرو جوکرنا ہے کرو مگر بلوچ خواتین کے ریپ زدہ زندہ لاشیں ویرانوں میں مت پھینکو۔ معاف کرنا لطیف بلوچ اگر اختر جان کے نذیک زندہ ہونا اور زندگی اسی کو کہتے ہیں تو ہم اس زندگی پر ہزار لعنت اورکتے کی دعا پڑھتے ہیں۔
براہوئی میں متل ہے کہ’’ کم سیالی آن گم سیالی شرے‘‘ کیا اگر زندگی یہی ہے تو اس سے عزت سے مرنا عظیم نہیں۔؟یقیناً انھی باتوں کو مدِ نظر رکھ کر جن جن بلوچوں نے اختر جان کے اس بے ہودہ تجویز کو مسترد کیا ہوگا، آپ کو خوش ہونا چاہیئے تھاکہ انھوں نے اختر جان کو آئینہ دکھایا ہے کہ اپنے منہ سے کیچڑ کو صاف کریں۔ جہاں تک بات بقول لطیف بلوچ آپ کے کہ ’’ آزادی پسند ایک دوسرے کی تجویز کو برداشت نہیں کرتے تو اختر جان کے تجویز کو کہاں برداشت کریں گے؟ اسی سوال میں آپ نے اور آپ کے ضمیر نے آپ کو جواب دے دیاہے کہ اختر جان کا راستہ دوسرے بلوچ آزادی پسندوں سے الگ ہے، میرے ناقص خیال میں اس پر مزید وضاحت کی گنجائش باقی نہیں رہتا، وہ قابض کے ساتھ ہے اس کے حکومت کا حصہ جب کہ آزادی پسند پنجابی کے خون کے پیاسے ہیں۔
آپ کو علم ہونا چاہئے کہ تعمیری تنقید کی ہمیشہ ہر جگہ ضرورت ہے، اگر آپ کے آزادی پسند تنظیمیں یا پارٹیاں ایک دوسرے پر تعمیری تنقید کررہے ہیں، توخوش آئندہ بات ہے ہم ہی ایک دوسرے کے کمزوریاں نکال کر سیدھا اور ہموار راستے پر چلنے کا مشورہ دیتے ہیں، دشمن تو چاہے گا کہ ہم دلدل کے راستے پر چلکر اس کا انتخاب کریں۔ بہرحال اختر جان کی خاطر آپ جتنا طعنہ اور شغان دیں وہ اپنا سیاسی کشتی خود کب کا جلا چکا ہے۔ وہ بلوچ سیاست میں آستین کے سانپ ہیں اسکے اعمال سے بلوچ قوم واقف ہیں، وہ یہاں تک جانتے ہیں کہ مینگل کے ایک ہاتھ میں گاجر تو دوسری میں لاٹھی ہے اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے پہلے گاجر پر جھپٹتے ہیں یا لاٹھی پر؟
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔