مجید بریگیڈ اور تاریخ فدائین دنیا
سلمان حمل
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ دن کراچی میں چائنیز قونصل خانے پر بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے فدائیوں کے حملے کے بعد میں نے دنیا میں فدائین اور خود کش حملوں کی بابت تحقیق شروع کی کہ دنیا میں کب، کہاں اور کیسے فدائین یا خود کش حملے ہوئے اور مظلوموں نے کب کیسے اور کہاں ظالم کیخلاف اس طرز کے حملے کیئےـ سوچا اس تحقیق کی بنا پر کچھ رقم کروںـ دنیا میں پہلا خودکش حملہ 13مارچ 1881 میں روسی سلطنت میں ونٹر بلیس کے باہر ہواـ جب اگنیٹی گرینوسکی نامی نوجوان نے الیگزنڈر دوئم کے قافلے پر بم پھینکا لیکن الیگزنڈر کی گاڑی جو نپولین نے اسے گفٹ کی تھی، بلٹ پروف گاڈی تھی، جس کی وجہ سے وہ محفوظ رہے لیکن جونہی وہ گاڑی سے باہر آئے تو اگنیٹی گرینوسکی نے بھاگتے ہوئے الیگزنڈر کے پاؤں کے سامنے بم پھینکا اور دھماکے سے دونوں موقع پر ہلاک ہوئےـ اگنیٹی گریموسکی بائیں بازو کے تنظیم کا ممبر تھا، حملے سے ایک رات پہلے اگنیٹی گرینوسکی نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ہمارے شاندار فتح کیلئے میں ایک دن یا ایک گھنٹہ زندہ نہ رہوں لیکن مجھے یقین ہیکہ میں نے اپنی موت کیساتھ اپنی ذمہ داری پوری کی اور اس طرح گرینوسکی دنیا کی تارخ میں پہلے ریکارڈ شدہ فدائین حملہ آور تصور کیا جاتا ہےـ
اسکے بعد پچھلے ایک سو تیس سال سے دنیا کے مختلف ممالک میں خودکش حملے ہوتے آ رہے ہیںـ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے ٹوکوٹائی تعینات کی، جس میں فوجیوں نے دشمن پر خودکش حملے کیئے ان حملوں میں نہ صرف فوجیوں نے بلکہ یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے رضاکارانہ طور پر بھی شرکت کیـ اور کشتیاں بارود سے بھر کر لے جاتے تھے اور اپنے مطلوبہ اہداف پر حملہ کرتے تھےـ جنگ عظیم کے اختتام پر جاپانیوں نے 3860 فدائی حملے کیئے اور دشمن کے تقریباً 50 بحری جھاز تباہ کیئے، ان خودکش حملوں کا دشمن پر شدید نفسیاتی اثر پڑا۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی ایڈمائرل ہالسے نے کہا تھا کہ یہ وہ واحد ہتھیار تھا، جس سے میں خوف زدہ تھا ـ اسی طرح جب مڈل ایسٹ میں سویت یونین کو شکست دینے کیلئے برطانیہ اور امریکہ نے اسلامی جہادی تنظیموں کو مضبوط کرنا شروع کیاـ تو 1970 کی دہائی میں سعودی عرب نے بھی وہابی فرقے کو پروان چڑھانے کیلئے کروڑوں ڈالر خرچ کیئےـ اسرائیل نے جب 1980 میں لبنان پر قبضہ کیا تھاـ تو دوسرے جنگ عظیم کے بعد 23 اکتوبر 1983 کو پہلا فدائی حملہ امریکی فوجی بیس پر کیا گیا، اس حملے میں دو سو اکتالیس امریکی فوجی ہلاک ہوئے، اس حملے میں تقریباً بیس ہزار پاؤنڈ بارود مواد استعمال کیا گیا، جو ایک ٹرک میں تھے۔ اسکے بعد ایک اور فدائی حملہ فرانسیسی فوجیوں پر کیا گیا جس سے اٹھاون 58 فوجی ہلاک ہوئے ـ ان حملوں کا الزام شیعہ عسکری ونگ پر لگا جسے ایرانی حکومت کی مدد حاصل تھی ـ ان حملوں کے بعد حزب اللہ نامی ایک جہادی تنظیم سامنے آگیا اور 1980 کی دہائی میں بیس سے زائد حملوں کی ذمہ داری حزب اللہ نے قبول کیئے ـ
سری لنکا میں جب جنگ جاری تھا تو LTTE جو تامل ریاست کی آزادی کیلئے لڑرہا تھا یا یوں کہیں کہ تاملوں کیلئے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کررہا تھا ـ LTTE کے لیڈر ویلو پلائی پربھاکرن سینکڑوں خود کش حملہ آور تیار کرنے میں کامیاب ہوا اور انہیں بلیک ٹائیگرز کا نام دیاـ بلیک ٹائیگرز نے پانچ جولائی 1987 کو سری لنکن آرمی کے بیس پر بارود سے بھری ٹرک سے حملہ کیا، اس حملے میں پچپن سری لنکن فوجی ہلاک ہوئے اور بلیک ٹائیگرز سے وابستہ ممبران کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ حملوں کیلئے نام لاٹری کیئے جاتے تھے اور جو لوگ بلیک ٹائیگرز میں شامل تھے انہیں بھی شھید کا نام اور درجہ دیا گیاـ انیس سو اسی سے لیکر دوہزار تین تک بلیک ٹائیگرز نے لاتعداد حملے کیئے اور انہی فدائی حملوں کی وجہ سے بلیک ٹائیگرز عالمی سطح پر سرفہرست تھا، ٹائم میگزین نے ایل ٹی ٹی ای کو کامیاب ترین اور منظم تنظیم بھی قرارد دیا تھاـ بلیک ٹائیگرز نے دو ہائی پروفائل ٹارگٹ سری لنکن وزیر اعظم رنا سنگ پریتم داسا اور انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی سمیت سری لنکن کیبنٹ کے پانچ ممبران کو بھی نشانہ بنایا جبکہ خودکش جیکٹ کا ایجاد بھی بلیک ٹائیگرز نے کیاـ
فدائین حملوں کیلئے عورتوں کو بھی استعمال کیا گیا یونیورسٹی اف شگاگو کیمطابق انیس سو اکاسی سے لیکر دوہزار دس تک 125 عورتوں نے خودکش حملے کیئے، ان خود کش عورت حملہ آوروں میں باعث شہرت وہ فدائین عورت بنے جنہوں نے چیچنیا کی آزادی کی جنگ لڑی ـ یہ عورتیں ان عورتوں میں سے تھے جن کے خاوند یا بھائی آزادی کے جنگ میں شھید ہوئے تھے، روسی میڈیا نے ان فدائین عورتوں کو بلیک ویڈو کا نام دیاـ ان عورتوں کے فدائین حملوں میں کامیابی کا راز انکی شناخت اور مشکوک نہ ہونے سے تھا جس سے وہ اپنے اہداف تک باآسانی رسائی حاصل کرتےـ
دیگر مظلوم اقوام کی طرح بلوچ تاریخ میں بھی بلوچ قوم نے دشمن کیخلاف فدائی حملے کیئے، جن کا آغاز ستر کی دھائی میں اس وقت کے وزیر اعظم ذولفقار بھٹو پر مجید اول کے حملے سے ہوتا ہے، اگرچہ اس حملے ذولفقار بھٹو محفوظ ریے مگر شھید مجید نے پاکستان کو باور کرایا کہ بلوچ کسی بھی قیمت پر آپ کی غلامی قبول نہیں کرے گا اور اپنے آزادی کیلئے کسی بھی حد تک جائے گاـ
بلوچ تحریک کے حالیہ ابھار میں بلوچ مزاحمتی تنظیموں (بی ایل ایف بی ایل اے بی آر اے وغیرہ) نے پاکستانی مختلف اوقات میں بلوچستان دیھی و شھری علاقوں میں مختلف طرز کے حملے کیئے ہیں ان حملوں پاکستانی فوج کی بڑی تعداد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں ـ
مگر دوہزار دس میں ایک بار فدائی حملوں کی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے باز محمد المعروف درویش بلوچ نے کوئٹہ میں ریاستی کاسہ لیس اور اہم ریاستی مخبر شفیق مینگل کے گھر پر فدائی حملہ کیا، اس حملے میں متعدد اہلکار زخمی اور دس سے زائد ریاستی آلہ کار ہلاک ہوئے اس حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی کے مجید برگیڈ نے قبول کی ـ
مجید برگیڈ بلیک ٹائیگرز کی طرح بی ایل اے کا فدائین برگیڈ ہے ـ اور تواتر کے ساتھ مجید برگیڈ کے فدائین کے حملے جاری ہیں ـ کوئٹہ کے بعد گیارہ اگست دوہزار اٹھارہ کو بلوچستان کے علاقے دالبندین میں پاکستان کے ہمنوا اور بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں شراکت دار چائنا کے انجینئروں پر بلوچ لبریشن آرمی مجید برگیڈ کے جوان ریحان نے فدائی حملہ کیا، اس حملے میں بارود سے بھری ایک گاڑی کو چائنیز انجینئروں کے بس سے ٹکرایاـ ریھان بلوچ، بلوچ لبریشن آرمی کے سینئر کمانڈر اسلم بلوچ کے لخت جگر تھےـ ویڈیو پیغام میں ریحان بلوچ کو اپنی مادر و پدر کو رخصت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اسی پیغام میں وہ چائنا کو انگلش زبان میں وارن کررہے ہیں کہ وہ بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں اور دنیا سے مخاطب ہوکر مزید کہتا ہے کہ میں اپنے اس عمل فدائی سے دنیا کو باور کرانا چاھتا ہوں کہ بلوچ اپنی سرزمین کی دفاع ہر صورت میں کرے گا ـ
یہ تسلسل شدت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اس تسلسل کو رازق بلوچ، رئیس بلوچ، ازل خان بلوچ نے برقرار رکھا اور 23 نومبر 2018 کو کراچی کے انتہائی حساس و سیکورٹی کے حوالے ریڈ زون میں چینی قونصل خانے پر فدائی حملہ کیا، اس حملے میں مجموعی طور پر پاکستانی میڈیا نے سات ہلاکتیں ظاہر کیئے جبکہ سیکورٹی اداروں نے اس حملے کو ناکام بنانے کا ڈھنڈورا پیٹا مگر بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ کراچی حملے کے مقاصد حاصل کیئے جاچکے ہیں، ساتھی ویزہ سیکشن تک جاپہنچے مگر آگے نہ جاسکے ابتدائی لمحوں میں ٹیکنیکل استاد ازل خان شھید ہوئے ایک اور بیان میں جیئند بلوچ چائنا کو وارن کرتے ہیں بلوچ سرباز فدائین کے حملے کے مقاصد بالکل واضح تھے کہ بلوچ سرزمین پر چائنا کے فوجی توسیع پسندانہ عزائم کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائیگا اور چین جلد از جلد بلوچستان سے دستبردار ہوجائے ورنہ اس طرز کے حملے تواتر سے جاری رہینگے۔ دنیا سے مخاطب ہوکر کہتا ہیکہ کہ ہم اس حملے کی توسط سے دنیا کی توجہ بلوچ قومی مسئلے پر مبذول کرانا چاھتے ہیں کہ اقوام عالم جلد از جلد بلوچ قوم کو چین اور پاکستان کی قبضہ گیریت اور غیر انسانی اقدامات سے نجات دلانے کیلئے اپنا اخلاقی اور قانونی کردار ادا کریں ـ
فدائین حملہ آوروں کے پیغامات سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ 1881 اگنیٹی گرینوسکی نے اپنی مقصد کے بارے میں اپنی جان دے کر اپنا فرائض انجام دیا تو آج بلوچ نوجوان بھی اپنی مقصد دفاع وطن آزاد بلوچستان کیلئے اپنے سروں کی قربانی دے رہے ہیں ـ یہ واضح ہوچکا ہے کہ جب جاپانی اپنی اہداف تک پہنچنے کیلئے 3860 فدائی حملہ کرسکتے ہیں ـ تامل اپنے ہائی پروفائل ٹارگٹس تک پہنچنے اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر بلیک ٹائیگرز میں شامل ہوتے ہیں ـ چیچنیا کی آزادی کی خاطر شھیدوں کی بھن بیویاں فدائی حملے کرسکتے ہیں ـ تو بلوچ مائیں بھی آج اپنی چشم چراگاں کو رخصت کرکے وطن کی خاطر فدائی حملے کیلئے روانہ کرتے ہیں ـ اور بلوچ سرباز بھی اپنی وطن کی دفاع سرزمین کی آزادی اور ساحل وسائل کی حفاظت کیلئے مجید برگیڈ کے حصہ بنتے رہیں گے ـ اور مظلوموں کے فدائی حملوں کا تسلسل رہتی دنیا تک اسی طرح جاری رہینگے ـ