عصاء لیکر عصاء کی تلاش – برزکوہی

220

عصاء لیکر عصاء کی تلاش

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

بڑھاپے کا سہارا، اپنا ہی لخت جگر اپنی ہی وطن یا ماں کی آغوش میں قہر و زندان میں ہو تو کیا کرے، خشک لکڑی کی عصاء کے سہارے کے علاوہ اور کیا بچتا ہے۔

پورے دس سال؟ کہنے، لکھنے اور پڑھنے میں کس قدر آسان۔۔۔ مگر اپنے لخت جگر کی انتظار میں 10 سال اپنی جگہ 10 منٹ زندگی میں قیامت برپا کرتی ہے۔ سچائی اور ایمانداری سے مجھ سمیت کسی کو بھی اس بات کا احساس ضرور ہوگا لیکن احساس کے صحیح معنوں میں احساس ہرگز نہیں ہوتا، کیونکہ یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔

یہ بوڑھی ماں بھی دوسرے ماوں کی طرح سوچ رہی ہوگی کہ میرا بیٹا سمیع جان جب بڑا ہوگا، تو پڑھے گا، جوان ہوگا، اچھا خاصا ملازمت ملے گا، میں بھی بنگلے اور گاڑیوں میں بیٹھ کر آسائش کی زندگی گذاروں گی۔

مگر ماں کو کیا خبر تھی یہ بلوچستان ہے یہ اپنے بچوں کو خود کھاکر اور ہضم کرکے زندہ رہنا چاہتی ہے۔ آسائش تو کجا عصاء کو ہاتھ میں لیکر، دوسرا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر کسی سڑک کنارے اپنے وطن میں، اپنے ہی بیٹے کی بازیابی کا وہ بھی غیروں سے بھیگ مانگنا، آج صرف ایک ماں کا نہیں، یہ المیہ ہزاروں ماوں کی مقدر بن چکا ہے، شاید آگے لاکھوں ماوں کا مقدر بن جائے۔ کیونکہ سلگتے بلوچستان کی تپش دور دور تک لاکھوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیگا، اس وقت تک، جب تک نظر بد کی نظریں اور قابض کی قبضے کی ناپاک قدم مادروطن کے سینے پر سجی ہوں۔

میں آج بھی خود میں، دوسرے بلوچوں میں، بلوچ روایات کی روایات پرستی اور دعویداری، ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھکا تو نہیں لیکن حیران اور پریشان ضرور ہوں، بلوچ تاریخ میں جب سمی نامی بلوچ خاتون کی بات آتی ہے تو دودا اپنے سرپر کفن باندھ کر نکل پڑتا ہے، مگر یہاں ایک سمی کی نہیں ہزاروں سمیاں بلکہ ہزاروں بچے غیر اقوام کے ہاتھوں دن دھاڑے غائب ہورہے ہیں، بلوچ روایات کے علمبرادار اور پاسداری کے مطابق کہاں ہیں وہ دودا اور کہاں پر ہیں اس کے بیرگیر بھائی بالاچ؟

کہاں ہیں وہ انسان اور انسانیت کی دعویدار دانشور، مفکر، فلاسفر اور صحافی جو انسان اور انسانیت کی پاسداری، علمبرداری اور جہدوجہد میں آج تاریخ میں سارتر اور برٹینڈرسل کے عظیم ناموں سے یاد ہوتے ہیں اور ہمیشہ زندہ ہیں؟ یہاں تو بلوچ روایات کی مکمل پامالی کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کی پامالی آئے روز بلوچوں کے ساتھ ہوتا جارہا ہے۔

آج عملی کردار نبھانے کی ضرورت ہے، اس سنگین اور انسانیت سوز المیہ پر ویسے تو دنیا میں آج بھی برٹینڈرسل اور سارتر سے زیادہ اچھے لکھنے، پڑھنے اور بولنے والے دانشور، مفکر، فلاسفر، صحافی اور انسانیت کی دعویدار موجود ہوں مگر صرف موجودگی میں اگر کردار فعال اور عملی نہ ہو تو وہ موجودگی خود صرف بے عملی وغیر موجودگی شمار ہوتا ہے۔

صرف دکھاوے اور دعوے کی حد تک کوئی بھی نہ تاریخ رقم کرسکتا ہے، نہ عظیم بن سکتا ہے، بلوچ قوم اس وقت اس لیئے قومی اور انسانی بنیادوں پر ایک تاریخ ساز دور سے گذر رہا ہے کہ بلوچ قومی مسئلہ اور المیہ خود ایسا موقع فراہم کررہا ہے، کوئی بھی خوف اور لالچ سے نکل کر اس موقع سے فائدہ اٹھاکر عملی کردار نبھاکر تاریخ میں برٹینڈرسل، سارتر اور دودا اور بالاچ بیرگیر بن سکتا ہے۔ ہمیشہ تاریخ رقم کرنے کے لیے تاریخ ساز دور کی ضرورت ہوتی ہے، اس تاریخ ساز دور سے آج بلوچ قوم بحثیت انسان گزر رہے ہیں۔

تنقد برائے تنقید، نقطہ چینی، مخالفت در مخالفت، حوصلہ شکنی، الزام تراشی، طنز و دشنام طرازی اور ہر چیز میں کیڑا نکالنے کا رجحان اور رویہ وہاں پیدا ہوتا ہے، جہاں بہتری کی کوئی امید اور توقع نہ ہو اور تنقید برائے تعمیر و اصلاح اور بہتری کا رجحان اور رویہ وہاں ہوتا ہے، جہاں ناامیدی، مایوسی، پشیمانی اور پریشانی نہ ہو بلکہ بہتری اور اصلاح کی امید اور توقع ہو۔

آج من حیثیت بلوچ قوم، ایسے عہد سے گذر رہے ہیں، جہاں صرف بلوچ قوم کی نہیں بلکہ دیگر اقوام کے بھی ہر مکاتب فکر کے لوگوں کے لیے ایسے تاریخی ساز مواقع دستیاب ہیں کہ اس تاریخ ساز دور میں اپنی تاریخ نبھائے۔ مگر بدقسمتی سے تاریخ کی نابلدی اور مجموعی طور پر علم و شعور سے بیگانگی لمحہ بہ لمحہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کسی کو صحیح معنی میں توفیق نہیں دے سکتا۔

حقائق اور حقیقت کی بنیادوں پر دیکھا جائے اور سمجھا جائے، اس وقت بلوچ پشتون اور سندھی اقوام کے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغواء اور غائب کرنا یا پھر ان کی انتہائی تشدد زدہ اور ناقابل شناخت لاشوں کو پھینکنا یا اجتماعی قبروں میں دفنانا یہ ایک معمولی اور سطحی مسئلہ یا ایشو نہیں بلکہ ایک انسانی اور عالمی طور پر انتہائی سنگین مسئلہ ہے، پوری انسانی تاریخ کو جھنجھوڑنے اور ہلانے والا انسانی مسئلہ اور المیہ ہے، مگر کیوں آج تک یہ عالمی مسئلہ ہوتے ہوئے بھی عالمی مسئلہ نہیں بن سکتا ہے؟

پھر ہم واپس وہاں آکر رک جاتے ہیں کہ خود اس عالمی مسئلے اور المیے سے نابلدی اور عدم واقفیت کیا خود لاشعوری اور لاعلمی کی طرف واضح ثبوت نہیں ہے؟ جب تک ہمارے سیاست اور سیاسی سوچ، طرزعمل، نقطہ نظر اور رویئے، روایتی اور گند آلود، سیاست کی گول دائرے میں مقید ہو، اس وقت تک ہر مسئلہ معاملہ اور ایشو انتہائی سطحی بن کر روایتی سیاست کے بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔

بےشک محنت، قربانی، جوش و جذبہ، موقع اور حالات کی وجہ سے اچھے مواقع اور کامیابی کے مواقع قریب تر ہوتے ہیں، مگر علم و شعور، صلاحیت و فن اور حکمت غائب ہو تو وہ تمام مواقع ایسے زائل ہوتے ہیں کہ کبھی وہ مواقع ہی نہیں تھے۔

آج بالکل بلوچ و پشتون اور سندھی سمیت پاکستان کی جبر کے شکار دیگر مظلوم اقوام ایک ساتھ ہوکر ایک آواز بن کر لاپتہ مسخ شدہ اور اجتماعی قبروں کی انسانی اور عالمی ایشو کو انسانی جدوجہد کی بنیادوں اور اصولوں پر آگے لیجائے، تو تاریخ میں انسانیت کی بنیادوں پر چلنے والی تاریخی اور کامیاب تحریک ثابت ہوگا، بشرطیکہ روایتی سیاست اور گندآلودگی سے محفوظ ہو۔

انسانیت کے حقیقی علمبردار، حقیقی و فکری دانشور، ادیب، شاعر، صحافی، قلم کار، ڈاکٹر، وکلاء، طلباء، سیاسی و قبائلی زعماء اور کارکن یعنی ہر مکاتب فکر کے لوگ اس سنگین مسئلے کو صرف اور صرف انسانی اور انسانیت کے ناطے انسانی مسئلہ سمجھ کر کرب میں مبتلا ہزاروں ماؤں اور بہنوں کے ساتھ عملی طور پر دیدہ دلیری سے شانہ بشانہ ہوکر قطرہ قطرہ رواں دواں انسانی حقوق کی تحریک کو سمندر کی شکل اور رخ دیں، تب جاکر مزید اس طوفان کی لہروں سے آگے انسان اور انسانیت محفوظ ہونگے، وگرنہ یہ ہزاروں سے لاکھوں کے تعداد میں ہونگے۔

اگر تاریخ میں ہولوکاسٹ آج بھی مذمت و نفرت کا نشانہ ہے تو ہٹلر کے ساتھ ساتھ اس عہد کے باقی بے حس، لالچی، درباری، بزدل اور خوف کے شکار لوگ جو خاموش تھے اور ڈرپوک تھے، وہ بھی آج اور تاریخ میں نفرت مذمت اور لعنت کے القابات سے یاد ہوتے ہیں۔

آج بلوچ ہولوکاسٹ اور واقعہ کربلا کی عہد سے گذر رہا ہے اور تاریخ ہر دن کو اپنے آغوش میں لیکر تاریخ رقم کررہا ہے، ایسا نہ ہو مورخ کی بے رحم قلم کی نوک سے یہ لفظ بار بار نکل نہ جائے کہ ایک طرف انسان اور انسانیت کا پاکستانی فاشسٹ فوج کے ہاتھوں قتل عام ہورہا تھا، دوسری طرف باقی انسان بھیڑ و بکری یعنی جانوروں کی طرح صرف کھانے پینے اور سونے میں مصروف تھے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔