نوآبادی نفسیات کا بلوچ سماج پر غلبہ
تحریر: اورنگزیب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایسے سماج جو طویل محکومی و سامراجی تسلط کا شکار ہیں، جہاں انسان کی اقتصادی، سیاسی و سماجی زندگی سب ظالم کے طور طریقوں اور حکم کے ماتحت ہوتے ہیں، جس میں مظلوم قوم کو مجموعی طور پر ایک ایسی حالت میں مبتلا کیا جاتا ہے جس میں اسکی اپنی ذات اسے بے کار و حقیر لگنے لگتا ہے۔ اور ہمیشہ اسے ایسی حالت میں رہنے کا یقین ہوتا ہے جسے کسی صورت تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور وہ اسے قبول کر بیٹھا ہوتا ہے۔ بقول سارتر یہ انسان کی Bad Faith ہوتی ہے۔ محکوم قوم جسکی نا اپنی کوئی اخلاقیات باقی رہتی ہیں اور نا زبان و ثقافت اور نہ ہی کسی قسم کی پیداواری عمل میں کوئی گنجائش وہ محض حکم کا تابع شخص ہوتا ہے، جسے نہ بنیادی ضروریات زندگی پر دسترس حاصل ہے نہ جینے اور اپنے طریقے سے کام کرنے کی آزادی ہوتی ہے بلکہ اسکی مثال پالتو جانور کی سی ہے جو جب تک آقا کے پیداواری عمل میں زائد پیداوار کے لئے کارآمد ہے تب تک اسے اتنا ملتا رہیگا تا کہ وہ زندہ رہ سکے اور پیداواری عمل میں ایک مشین کے پرزے کا کردار ادا کر سکے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں انسان بولتا مشین ہے جبکہ کالونیل طرز سماج میں انسان گونگا مشین ہے۔ جس کے ساتھ جو سلوک کیا جائے جائز ہے کیونکہ وہ بول نہیں سکتا۔ اگر اشاروں کا سہارا لے تو اسکے ہاتھ پیر کاٹنے کا پورا اختیار کالونائزر کو حاصل ہے۔ نوآبادکار ہمیشہ جہاں آبادکاری کرتا ہے تو اس خطے کے ساحل و وسائل پر پورا اختیار حاصل کرنے کی کوشش میں کالونائزڈ کو ایک نئی متبادل پیش کرتا ہے، جس میں اسکی ثقافت اسکا پہچان اور گزر بسر کے طور طریقے سب کالونائزر کے مقابل حقیر حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لئے جلد ہی کالونایزڈ کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ حالت اسکی غیر تہذیب یافتہ طرز زندگی کے باعث بنی ہے۔ اگر وہ کالونائزر کی طرح زندگی گزارے تو وہ بھی معیاری زندگی کا حقدار بن سکتا ہے۔ اسی طرح محکوم اپنے ہی وجود کی نفی کرتے ہوئے کوئی دوسرا وجود خود میں سمو دینے کی گنجائش پیدا کر دیتا ہے اور شخصی تکمیل کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے جو کہ محکوم قوم کی اجتماعی مفادات کے برعکس اسکے حالات کو مزید گھمبیر کرنے کے مترادف ہے۔ یوں نوآبادکار کا معاشی، سماجی و نفسیاتی، غلام بن جانے کو اپنا تقدیر سمجھ کر قبول کر لیتا ہے تاکہ اپنے ہی لوگوں پر جبر میں اضافہ کرکے ظالم کے مقام کو پاسکے۔ چونکہ محکوم کی اپنی شناخت اسکی ثقافت زبان رہن سہن کے طور طریقے اور سماجی زندگی سب مسمار ہوچکا ہوتا ہے اور اسے یقین دلا دیا جاچکا ہوتا ہے کہ وہ ہر طریقے سے نوآبادکار سے کمزور ہے۔ کسی بھی صورت حاکم کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حاکم علمی سماجی، نفسیاتی، تہذیبی و ثقافتی طور پر اس سے اعلیٰ درجہ رکھتا ہے اور اس بات کو باور کرانے کیلئے کالونائیزر اپنی تمام تر قوتوں کو بروئے کار لا کر نوآبادی کی تاریخ یعنی کہ اسکی یاداشتیں، اسکی وجودیت، اپنی سماجی حقیقت کو مٹا دیتا ہے جس سے زیردست اپنی شناخت کھو بھیٹتا ہے۔ اپنی قومی اداروں کے اہمیت و کردار سے ناواقف رہ جاتا ہے اور نوآبادکار سکون سے لوٹ کھسوٹ کے سلسلے کو بنا کسی خلل کے جاری رکھ پاتا ہے۔
بلوچ سماج کی حالت بھی بالکل ایسی ہی ہے، جہاں مڈل کلاس نوآبادکار نفسیات کا بری طرح سے شکار ہوچکا ہے اور معیار زندگی تیزی سے گرواٹ کے جانب بڑھنے سے سامراجی کردار ادا کرنے میں ہی اپنی بقاء و سامراج کا روپ دھار لینے سے ہی آقا کے مقام تک پہنچنے کو بہترین طریقہ سمجھ بیھٹا ہے، جس کی کئی ساری مثالیں لوکل نوابوں، سرداروں، دانشوروں و تعلیمی اداروں میں استادوں کی شکل میں ملتے ہیں۔ نوآبادکاری نفسیات سے متاثرہ لوگ سماج میں ظلم و جبر میں زیادہ شدت سے اپنا کردار نبھاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جتنا زیاہ ظلم کیا جائیگا اتنا ہی آقا کی خوشنودی و مقام حاصل کیا جا سکے گا۔
بقول پاؤلو فریرے ”جب کسی مزدور کو فورمین کی کے عہدے پر ترقی دی جاتی ہے تو وہ اکثر و بیشتر اپنے گزشتہ ساتھیوں یعنی مزدوروں کے ساتھ مالک سے بھی زیادہ سخت اور ظالمانہ رویہ اختیار کرتا ہے۔” اور یوں وہ سمجھتا ہیکہ اس ظلم سے وہ مقام جو نوآبادکار کا ہے وہ پالے گا۔ یہی حالات بلوچستان کے سماجی زندگی میں عام دیکھنے کو ملتی ہے جسکے سینکڑوں مثالیں پڑی ہیں۔ یہی حالت تعلیمی اداروں میں بھی ہے جہاں استادوں کی نفسیات بلکل نوآبادکار کی نفسیات کی غمازی کرتا ہے اور تعلیمی اداروں میں چھاؤنیوں کی حمایت میں طلباء کو سیاست و سیاسی عمل سے دور رہنے کا درس دینا اور طالبات کو کھلم کھلا ہراساں کرنا معمول کی بات بن چکی ہے۔ بلوچستان کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ آج چھاؤنی بن چکا ہے ڈیپارٹمنٹس کی صورتحال ناقص ہے اور استادوں کی اکثریت وائس چانسلر کی پشت پناہی میں درجنوں جنسی ہراسگی کے کیسز کے باوجود اپنے کام میں سرگرم عمل ہیں۔ ڈوگ شوٹر کے نام سے سیکیورٹی انچارج کی کھلم کھلا بدمعاشی و سینکڑوں کی تعداد میں کیمرے جو ہر وقت طلباء کی تمام سرگرمیوں کو انڈر اوبزرویشن رکھے ہوئے ہیں۔ مزید براں انتظامیہ کے کرپشن کے قصیدے زبان زد عام ہیں۔ وائس چانسلر کروڑوں کا کرپشن کر کے بھیٹا ہوا ہے۔ جامعہ بلوچستان ایک وقت میں طلباء سیاست کا مرکز رہا ہے اور اس عہد میں ادارہ طلباء کا ادارہ مانا جاتا تھا، جس میں طلباء پر ہوئے کسی قسم کے ظلم کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی ایڈمنسٹریشن و نام نہاد بدکار استاد کوئی غلط اقدام کرنے کی جرات رکھتے تھے کیونکہ وہ عہد حقیقی طلباء سیاست و نظریاتی جہد کا تھا جس میں طلباء پر آئے کسی بھی قسم کی مشکل گھڑی کو متحد ہو کر شکست دیا جاتا تھا۔ محکوم اپنی محکومیت سے آشناء تھی مگر بد قسمتی سے آج وہ اتحاد سنجیدگی و حقیقی طلباء مسائل کی نمائندگی میں سست روی و طلباء کا حقیقی نظریات سے کنارہ کشی کے باعث ادارے طلباء کے قبضے سے باہر ہوچکے ہیں۔
آج اگر طلباء سیاست کو پھر سے پروان چڑھانا ہے اور اداروں کو دوبارہ طلباء کے کنٹرول میں لانا ہے تو سب سے پہلے حاکم کی پھیلائی ہوئی نفسیات جو ایک محکوم کی شناخت کو خطرے میں ڈال چکی ہے کو شکست دینا ہوگا اور نوجوانوں کا اعتماد بحال کرکہ انہیں درست سائنسی نظریات کے سانچے میں ڈال کر ہی راہیں ہموار کرنی ہونگی جس کے لئے محکوم کو اسکی محکومیت کا شعوری ادراک دلانہ اولین فریضہ بنتا ہے جو محض حقائق پر مبنی جدید علمی و سیاسی عمل کا ہی تقاضہ کرتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔