ہزاروں میں سے ایک دل جان بھی ہے
تحریر: نور خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
وہ جو دلوں میں سے جاتے ہیں وہی مر جاتے ہیں، لیکن کچھ ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو مستقل ہماری زندگی اور کہانیوں کا حصہ بن جاتے ہیں، انسان زندگی میں اگر کسی شخص کو بھول جاتا ہے تو اس سے بے پناہ نفرت کرتا ہے، وہ اسے اپنے خیالوں میں اپنے اندر ایک انسان نہیں سمجھتا ہے، اس کو اپنے دل سے نکال کر انکی حرکات سے نفرت کرتا ہے۔ آج کی دور میں انسان کسی سے بھی خوش نہیں ہے، اگر ہم دیکھیں ایک انسان اپنے بھلائی کےلیئے محنت کرتا ہے اور آگے جانے کیلئے دن رات ایک کرتا ہے تو دوسرے انسان اسکو شکست دینے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں اور ایک انسان ہروقت ناکام رہتا ہے تو لوگ اس پر عبرت کرتے ہیں، کچھ اس پر ایسی باتیں کرتے ہیں، جو اس کو ناکامی کی طرف لے جاتے ہیں اسی بات سے ہی کہا جاتا ہے کہ انسان جیسا بھی ہو دوسرے لوگ اپنا منہ کبھی بھی بند نہیں رکھتے۔
میں آج کچھ ایک انسان کے بارے میں لکھنا چاہتاہوں، وہ ہم سے دور رہ کر ہمارے درمیاں میں رہتا ہے، شھید دل جان وہ شخصیت ہے، جس کے بارے میں جتنا بھی لکھوں کم ہے۔ شہیدوں نے آج کی دنیا میں ہماری شناخت بنائی ہے، وہ ہمارے دلوں سے کبھی نکلتے نہیں، وہ کبھی مرتے نہیں، وہ ایک انسان بن کر ہمیشہ ہمارے روح کو تازہ کرتے ہیں، ہماری جرت انہیں کی کہی ہوئی باتھوں سے بلند ہوتا ہے، ہم انکی راہ کے مسافر ہیں۔ انکے چہرے، ہر وقت ہم اپنی ذہن میں بناتے رہتے ہیں۔ ایک ایسی گیلیری کی طرح بناتے ہیں جو تب تک رہتے ہیں جب تک ہم رہتے ہیں اور ہمارے بعد وہ لفظوں میں تبدیل ہو کر تاریخ میں نوٹ ہوتے ہیں اور وہ لاکھوں انسانوں کی دلوں میں پھر بستے ہیں۔ انکی باتیں، وہ غم اور خوشی میں یاد آتے رہتے ہیں، انہی باتوں کو ہم دہراتے ہیں اوراسی دوران وہ ہمارے درمیان ایک انسان کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ انسان جو جہالت کی زندگی سے چھٹکارہ پانے کیلئے جدوجہد کرتا ہے اور زندگی کو نئے طریقوں سے تشکیل دینے کیلئے محنت کرتا ہے۔ مشکلوں سے بچنے کیلئے محنت کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم اپنی آزادی کیلئے ہر مشکل کا سامنا کرنے کیلئے ہر وقت تیارہیں۔
ہمارے شہیدوں نے راہ حق پرچل کر اپنی جانیں فدا کی ہے، تو ہم انکی راہ پر ہمیشہ رواں ہیں، اس راہ پر صرف شھید دل جان نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں شھداء چل پڑے، انکا خواب یہی ہے کہ بلوچستان کی آزادی چاہیئے، وہ ہر طرح کی قربانی چاہتا ہے، اس کو دینے کیلئے ھم تیار ہیں۔
13 نومبر وہی دن ہے، جب میر مہراب خان نے دلیری سے انگریز سامراج کا سامنا کیا اور اسکو کہا گیا تھا کہ انگریز کا لشکر بڑا ہے، آپ جنگ نہیں کرسکتے اور اس کا خواب یہی تھا کہ اگر میں جنگ نہیں کرسکتا تو دشمن کے سامنے سر جھکانے سے بہتر یہی ہے کہ میں اپنی مادر وطن کیلئے دوران جنگ لڑتے شہید ہو جاؤں اور اسی دن سے لیکر آج تک بلوچستان کی سر زمیں پر جنگ جاری ہے۔
شھید دل جان کا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے، جہاں اس سرزمیں نے جنگی، سیاسی ہر طرح کے بچوں کو جنم دیا ہے اور ان لوگوں نے بلوچستان کی آزادی میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑا ہے، کئی لڑتے لڑتے شھید ہوگئے ہیں اور کئی ابھی تک میدان میں جنگ لڑرہے ہیں۔ شھید دل نے اپنے ہمت اور حو صلہ مندانہ تربیت سے اپنے جدوجہد کو ہمیشہ بر قرار رکھا. آپ نے اپنے عظیم ساتھیوں کے ساتھ اپنے عظیم مقصد کیلئے ہر طرح کے مشکلات کا سامنا اچھی طرح سے کیا۔ بلوچستان کے کئی علاقوں میں اپنے گوریلا جنگی حکمت عملیوں سے دشمن کو ہر مقام پر شکست دیتا رہا۔
جب ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے پاکستانی عقوبت خانوں سے بازیاب ہوکر پہاڑوں کا رخ کیا، تو اسکی قربانیوں نے علاقے میں ایک نیا انقلاب لایا۔ اسی وقت بلوچ قومی جنگ، ایک نئے رنگ میں تبدیل ہو گیا تھا، شھید دل جان نے چاچا (ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ) کے ساتھ قومی تحریک میں ایک ایسا کردار ادا کیا کہ شھید نے اپنی ذاتی خوشیوں کو آگ میں جھونک کر قومی جدوجہد کی طرف توجہ دینے کا عظیم سبق سیکھا تھا، عظیم مقصد آزادی کیلئے پوری زندگی تحریک کے ساتھ ایک عظیم شخصیت کی طرح کام کرتا رہا اور اپنی عظیم قربانیوں کی وجہ سے اسے قومی جنگ میں ایک کمانڈر کی حیثیت بھی حاصل تھا۔
1 مئی 2011کو اپنے قریبی انقلابی ساتھی شھید جمال جان کے ساتھ ایک تنظیمی کام کیلئے دوران سفر انہیں پاکستانی قوج راستے سے اٹھاکر اغوا کرتے ہیں اور بعد میں 13 مئی 2011 کو شھید دل جان کی لاش کو خضدار فیروز آباد میں پھینکی گئی تھی اور کچھ دنوں کے بعد شھید جمال جان کی مسخ شدہ لاش کو دیکھا گیا تھا۔ انکی قربانیوں کو سلام پیش کرتا ہوں اور دنیا کی تمام شھیدوں کو جنہوں نے اپنی وطن کےلئے قربانیاں دی سلام پیش کرتا ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔