سیما بہن معاف کرنا ۔ شہہ مرید

434

سیما بہن معاف کرنا

تحریر۔ شہہ مرید

دی بلوچستان پوسٹ 

سیما بہن! میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں، جن سے میں آپ کے دکھ درد اور تکلیف و کرب کو بیان کرسکوں. اگر زہن میں کچھ خالی خولی الفاظ آتے ہیں تو وہ بھی اس لائق نہیں کہ آپکی تکلیف کو بیاں کرسکیں. سیما میری بہن آپکا دکھ اس قدر شدید ہے کہ میرے شرمندہ الفاظ بھی آپکے آنسوؤں کے سامنے خود کو بےبس پاتے اور دم توڑ دیتے ہیں. جس تکلیف اور درد سے آپ لوگ گذررہے ہیں، وہ آپ لوگوں سے زیادہ کوئی دوسرا انسان محسوس کرسکتا ہے نہ اُس کو بیان کرسکتا ہے. مجھے یہ چند الفاظ لکھتے ہوئے انتہائی بے بسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ بحثیت ایک بلوچ فرزند اور ایک بھائی کیا میری زمہ داری صرف اس حد تک رہ گئی ہے کہ میں چند سطور لکھ کر خود کو آپ کے دکھ درد تکالیف کے احساس سے بری الذمہ قراردیکر یہ سمجھوں کہ میں نے آپکے آنسوؤں کا لاج رکھ دیا ہے یا اپنی قومی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ آپکی آنکھوں سے چھلکتے یہ آنسو آج مجھ سمیت بےبسی کی تصویر بنے ہر اس بے حس کےلئے سوالیہ نشان ہیں، جو ہم سے ہماری ضمیر کے زندہ ہونے کا ثبوت مانگ رہے ہیں اور یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر تمہارا ضمیر زندہ ہے تو میرے ان آنسوؤں پر آپ لوگوں کی یہ بے حسی اور خاموشی کیوں؟ ایک بہن کے درد و تکلیف سے یہ بیگانگی کیوں؟

آج سوشل میڈیا کے ذریعے مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے ایک بہن اور بیٹی کی اپنے بھائی کی جدائی میں درد اور غم کی شدت سے زارو قطار بہتے آنسوؤں کا نظارہ تو کرلیا لیکن ایسے ہی اس قوم کی کتنی ہزاروں مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں جو ہماری نظروں سے او جھل اپنے پیاروں اور اپنی جگر کے ٹکڑوں کی زندگی کی آس و امید لئے بیٹھے روز ان کی جدائی کی اذیت میں پل پل جی رہے ہیں اور مر رہے ہیں، جو ہر روز اپنے آنسوؤں کا دریا بہا بہا کر اپنے دکھوں کو راہ دکھاتے ہیں اور روتے روتے اپنی بینائی تک کھودیتے ہیں. کیا کبھی نے ہم ان کے بارے میں سوچا اور ان کے حالتِ زار پر غور کیا ہے؟ کیا ہم ان کے دکھ درد اور تکلیف کا احساس ہے؟ کیا کبھی ہم نے اس جدائی کی تکلیف دہ ساعت کا احساس کیا ہے؟ نہیں کیونکہ کہ ہم اپنی زندگی میں کبھی ان اذیت ناک کیفیات سے نہیں گذرے ہیں اور ہم ان کی تکلیف، دکھ درد کے احساس سے پرے اپنی ذات اور زندگی کی رنگینیوں میں گم بےحسوں کی زندگی جی رہے ہیں، جو شاید کسی لعنت سے کم نہیں شاید ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ابھی تک ہم اور ہمارے پیارے محفوظ ہیں لیکن کب تک؟

دشمن سے کوئی گلہ نہیں ہے کیونکہ وہ دشمن ہے، وہ وحشی ہے، درندہ ہے اور انسانیت سے عاری ایک بدتہذیب مخلوق ہے یقیناً آج وہ اس مظلوم قوم کی بیٹی کی آنسوؤں کو دیکھ کر قہقے لگا رہا ہوگا۔

دشمن کے ہمنوا بنے چند روپوں اور وقتی آسائشوں کی خاطر اپنے ایمان، ضمیر اور غیرت کو بیچنے والے مخبر اور غداروں سے بھی کوئی گلا نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو دشمن سے بڑھ کر دشمن (آستیں کے سانپ) ہیں۔ جس نے نہ صرف آپ سے آپکے بھائی کو چھیننے میں دشمن کی مدد کی ہے بلکہ ان آستین کے سانپوں نے ہزاروں اور ماؤں کی گود اجاڑیں ہیں، بہنوں اور بیٹیوں سے ان کے سہارے چھین کر دشمن کے حوالے کیئے ہیں۔

ہمارے ارد گرد اپنی مونچھوں کا تاؤ دیئے، ہمارے اوپر فرعون بنے پھرتے فرسودہ قبائلی روایات کی پرچار کرنے والے نواب و سردار، میر و تمندان قومی عزت و وقار کے سوداگر اپنے دستاروں سےفوجی چھاؤنیوں میں جرنیل اور کرنلوں کے بوٹوں کو صاف کرنیوالوں سے بھی کوئی گلہ نہیں کیونکہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں یہ طبقہ بلوچ قومی روایات و اقدار (عزت و وقار، ننگ و ناموس) کی کس حدتک اور کس قدر پاسدار اور پاسبان ہیں۔

اگر کوئی دکھ اور افسوس ہے تو ڈر اور خوف کے مارے اپنے راج کے پڑھے لکھے بے حس طبقے کا ہے، جو دانشور، شاعر ادیب اور لکھاری ہونے کا دعویٰ کرکے تھکتے نہیں ہیں لیکن ان لوگوں کے ضمیر پر سیما جیسی بہنوں کے آنسو کوئی اثر تک نہیں کرتے ہیں، جو دشمن کی طرف سے ہونے والے مظالم، جبر اور بربریت کا اپنی آنکھوں سے نظارہ تو کرلیتے ہیں لیکن ڈر اور خوف مارے یہ لوگ اپنی انکھیں اور زبان کو بند رکھنے اور بزدلوں کی طرح جینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔

اگر کوئی شکوہ ہے تو اپنائیت کے دعویدار، ضد و انا کے خول میں بند گروہ پرست لیڈروں سے، جو دشمن کے ظلم و جبر اور دشمن کے مستقبل کے عزائم اور اس کے وحشی پن سے واقف ہونے کے باوجود بجائے متحد اور متفق ہونے کے اپنے ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کے مساجد میں اپنے چند مقتدیوں کے کیساتھ مقید آپسی رسہ کشی، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی تیر برسانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

سیما بہن ہمیں معاف کرنا بزدلوں، بےحسوں اور بے ضمیروں کی اس چاگرد میں آپکے دکھ درد اور آنسوؤں کا مداوا کرنے والا خود کسی کرشماتی خلا میں غوطے لگا رہا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔