جنگ آزادی از خود درس گاہ – بیرگیر بلوچ

289

جنگ آزادی از خود درس گاہ

تحریر۔ بیرگیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں سیکھنے و سکھانے کے لیئے درسگاہیں بنائی جاتی ہیں، کتابیں لکھی جاتی ہیں، حوالے دیئے جاتے ہیں، لیکچر پروگرام رکھے جاتے ہیں، سرکل لگائے جاتے ہیں، سوچنے کی جستجو لوگوں میں اجاگر کی جاتی ہے، کتابی حوالوں سے انہیں تحقیق کرنے کے عمل پر لگائی جاتی ہے، پھر کہیں کسی اور بیانیئے میں انہیں اس تک پہنچنے کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔

اس پیاس کو تلاش کہتے ہیں، جس کی کھوج میں صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے انسان اپنے موجودہ دور میں داخل ہوا ہے، یہاں تک پہنچنے کے لیے انسان نے کئی اتار چڑھاو سہے ہیں۔ دنیا انکا احسان مند ہے، جنہوں نے ہمیشہ سے نئی کھوج کرنے، نیا سماج بنانے کے لیئے اپنی زندگیاں وقف کردیں ہیں۔

ایسا ہی ایک عظیم ساتھی سنگت حئی، جس نے اپنی خود کی صلاحیتوں، قابلیت، فہم اور چناؤ سے ثابت کردیا کہ تحقیق ہی وہ حقیقی شے ہے جو آپ کو کامیابی کے دریچوں سے روشنی کی کرنوں سے روشناس کرادیتا ہے۔
.
حئی جو کبھی کسی ایک اسکول میں تسلسل کے ساتھ نہیں رہا، جو تعلیم کے غرض سے ہر بار اسکول بدلتا رہا، اس سوچ کے ساتھ کے یہاں اساتذہ وہ سب نہیں سکھا رہے، جس کی ہمیں ضرورت ہے، وہ ایک سے دوسرا، پھر تیسرا اسکول بدلتا رہتا۔ اسے کوئی اسکول راس نہ آنے کی بہت سی وجوہات ہو سکتے ہیں، مگر تعلیم سے اکتاہٹ نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ حئی فطری حوالے سے تحقیق کرنے والا، کھوج لگانے والا سوچ کا مالک تھا، اسے ہر شے کو جاننے، پرکھنے، سمجھنے میں دلچسپی لگا رہتا. اسے اتنا گلہ تھا کے اسکول میں بس وقت گزار نے کا ہنر بانٹا جا رہا ہے شعور نہیں۔

پھر یوں ہوا کے اس نے آزمانے کا حربہ ترک کرکے، خود ہی تحقق کرنا شروع کردیا، اب وہ اپنے سماج، اپنے ماحول، اپنے اردگرد کے حالات سے سیکھ رہا تھا۔ اب اسے یہ سب راس آنے لگا تھا کیونکہ وہ زندگی کے حقیقی معنوں کی تلاش میں تھا، وہ حیات کے مقصد کو ڈھونڈ رہا تھا، وہ اپنے جنم لینے کے اصل وجوہات سے واقف ہونے کے ڈگر پر نکلا تھا۔

جب ایسی پیاس لیکر کوئی سرزمینِ بلوچستان پر جنم لیتا ہے، تو اس کا منزل قطعاً اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ صدیوں سے سُلگتی اس نگر میں کئی داستانیں پنپتی ہیں، جو اپنی کتھا سنانے کو بے تاب رہتی ہیں۔

اسی کھوج میں حئی کو بھی وہ پہلی کڑی ملی، جس نے اسے اپنی طرف متوجہ کر دیا، وہ کڑی جس نے اس قوم کو مختلف طریقوں سے فاقہ کشی کے شکل میں تبدیل کر دیا تھا۔ وہ کڑی جس نے ہمارے سماج کو نچلے طبقے کا تابعدار بنا رکھا تھا، وہ سسٹم جس نے ہمیں ہمارے گھر کے اندر داخل ہونے کی بھی جامع تلاشی دینے پر راضی کر لیا تھا۔

جب تم اپنے سماج اپنے لوگوں کی غربت بھری زندگی کو دیکھ کر اس سماج میں پِستے اپنے خوابوں اور لٹتے آبرو کو ننگا ہوتے دیکھ کر یہاں سسک سسک کے مرنے والے امیر وطن کے غریب باشندوں کو دیکھ کر، غیروں سے آئے ہوئے کسی اور زبان کسی اور ثقافت کو اپنائے ہوئے حکمران کے جبر کو دیکھ کر، یہاں سے سیکھتے ہو تو تم اپنی دھرتی کو. پڑھ رہے ہوتے ہو، تم اس سے سبق سیکھ رہے ہوتے ہو تم اس دھرتی ماں کی دی ہوئی درس کو اپنانے لگتے ہو۔

حئی بھی انہی میں سے ہے، جس نے نہ کسی سیاسی پارٹی سے، نہ انکے سرکل سے سن کر، سمجھ کر سیکھنے کے عمل کو شروع کیا بلکہ وہ اپنے مادر دھرتی سے سیکھنے لگا ان احساسات کو محسوس کرنے لگا، جو بنا کچھ کہے ایک بیٹے کے لیے ماں کے دل میں پنپتی ہیں حئی نے اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کے آنکھوں میں مرتے ہوئے اپنے قومی شناخت کو دیکھا تھا اس نے بے معنی قہقہوں میں اپنی زبان کو کسی کونے میں لگام لگے دیکھا تھا، پھٹے پرانے کپڑوں میں اس انے اپنے ثقافت کو سسک سسک کر دم توڑتے دیکھا تھا۔

تب ہی اسے کبھی ضرورت نہیں پڑی خود کو تلاش کرنے کے غرض سے درسگاہ جانے کی یا پھر کسی سیاسی سرکل کی۔ وہ انقلاب کے دور میں خود کی ذہنی غلامی سے تنہا لڑکر پہلے اپنے ذہن کو پھر اپنے دل کو اس غلامی سے آزاد کیئے ہوئے تھا۔

چوک پر کھڑے وردی والے یا سرکاری دفاتر میں بیٹے افسر اب اسکے لئے فرعونیت کا چہرہ لیکر یہاں مسلط دکھائی دے رہے تھے۔ یہ سارا سسٹم جو کئی دہائیوں سے چلتی آ رہی تھی اس سے اسے اکتاہٹ ہوچکا تھا، یہ سب اسکے لئے بے معنی تھے، وہ اپنے حقیقی زندگی کو جان چکا تھا وہ چاہتا اس سسٹم سے ہٹ کر جیتا، خود کے لیے جیتا اپنے ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر وہ اس سسٹم سے الگ ہو بھی جاتا، مگر کہاں وہ سکون ملتا جس دھرتی مادر نے اسے درسگاہ بن کر جینے کا اصل مقصد آشنا کر دیا تھا، اس سے کیسے نظریں ملاتا ان آنکھوں میں ہر سمت کیسے مرتے شناخت کو دیکھ پاتا۔.

اس نے من و عن پختہ ارادہ کر لیا تھا، اس درس کا قرض ادا کرنے کا جو اسے دھرتی مادر نے عطا کیا تھا، وہ بغاوت کر چکا تھا، اس سسٹم سے اس غلامی سے اس سماج سے اس دشمن پاکستان سے، اسی وقت جب اس نے دھرتی مادر کو اپنا درسگاہ چنا تھا۔

اب جب ماں کی آغوش میں درس لیتا ہوا حئی غلامی کی کھنکتی زنجیروں کی آواز سے لطف اندوز ہونے کے بجائے نفرت کرنے لگا تھا، تب اس نے خود کو اس ڈگر کا راہی بنایا جو اپنے سسکتے مرتے بے خبر لوگوں کا مسیحا بن کر تاریک راتوں میں انکی انگلی پکڑ کر روشن سویرے کی طرف سفر کو جاری رکھتے ہیں۔

حئی اپنے کئی سالہ غلامی سے یہ جان چکا تھا کہ کس قدر غیر مہذب دشمن سے پالا پڑا ہے، وہ جسکا نہ کوئی دین، دھرم و ایمان، غیرت نہ روایت ہیں، وہ بے آبرو قوم کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

مگر حئی کو اتنا معلوم تھا کہ مجھے میرے حصے کا کام کرنا ہے، ان آخری لمحات تک، مخلصی، ایمانداری، بہادری سے اپنے لوگوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ تب ہی وہ نکل پڑا اس ڈگر پر جہاں دھرتی مادر کے سپوت سنگر میں بیٹھے اپنے وطن کی دفاع میں اپنے جانوں کا نظرانہ پیش کر رہے تھے۔

اس قافلے کا ایک بہادر نڈر تیر انداز ساتھی حئی جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دشمن کو اس قدر حواس باختہ کردیا تھا کے وہ اپنے قلعے سے نکلنا تک گوارہ نہیں کرتے تھے، وہ لڑتا رہا اور خوب لڑتا رہا جنگ کے دوران بھی اسکا درسگاہ دھرتی مادر اسے درس دیتا رہا، تب ہی تو سولہ سال کے عمر میں وہ دشمن کے مورچوں میں بندوق لیئے حملہ آور ہوتا رہا اسے اپنے اردگرد گھومتی ہوئی غلامی کی بدبودار روایت، بے چین کیئے جا رہے تھے، اس لیئے وہ کبھی ایک جگہ بیٹھا نہیں رہتا، وہ خضدار کے میدان سے پہاڑوں تک لڑتا رہا، اس نے دشمن پر اپنے ہر حملے کو چابک دستی سے انجام دیا، اپنے چھ سالہ جدوجہد میں اس نے تین سال تک خضدار شہر میں لڑ کر گزاری، ان دنوں و تواریخ میں اس بندوق کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔

حئی اپنے دھرتی مادر کے ساتھ بلوچستان کے وادیوں میں مصروف عمل ہیں، ایک اور حئی کو درس مادری دیتے ہوئے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔