ہمارے پاس ٹھوس ثبوت ہے شبیر بلوچ کو فورسز نے لاپتہ کیا ہے-ہمشیرہ

302

لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3383 دن مکمل

لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3383دن مکمل ہوگئے،بی ایچ آر او کے چیئرپرسن بی بی گل وائس چیئر پرسن طیبہ بلوچ سرگرم سیاسی و سماجی ورکر بانک حوران بلوچ نے کیمپ کا دورہ کیا۔

اظہاریکجہتی کرنے والوں سے سیما بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016کو ایک آپریشن کے دوران حراست میں لے کر لاپتہ کردیا گیا جس دن میرے بھائی کو اٹھایاگیا اسی روز گورکوپ کے پورے دیہات کو گھیرے میں لیکر 36 لوگوں کو لاپتہ کیاگیا جن کو بعد میں رہا کردیا لیکن میرا بھائی ابھی تک لاپتہ ہے۔

سیمابلوچ نے کہا ہمارے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ میرے بھائی کو ایف سی نے اٹھایاہے جس کی واضح گواہ انکی اہلیہ زرینہ بلوچ اور یہی 36لوگ ہیں لیکن ایف سی اور خفیہ ادارے والے لاپتہ کرنے سے انکاری ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنا احتجاج کرنے کے باوجود نہ ان کا ایف آئی آر درج ہوا اور نہ اس کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور نہ ان کو منظر عام پر لایا جارہا ہے ہم سارے گھر والے سخت پریشانی اور کرب کی حالت میں زندگی جی رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا پاکستان میں انسانیت دم توڑ چکی ہے عدالت فوجی قوت کے سامنے ہتھیار پھینک چکی ہیں ذراسی باتوں پر ازخود نوٹس لینے والے پاکستانی سپریم کورٹ کو ہم پر یہ بہیمانہ ظلم نظر ہی نہیں آتا ہے ۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قابض ریاست نہ صرف فوجی آپریشنوں اور سول آبادیوں پر بمباری کرتا آیاہے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنوں کو ماورائے قانون اٹھاکر اپنے عقوبت خانوں میں منتقل کرچکا ہے جن میں سے اکثر بلوچ پاکستان کے بدنام زمانہ غیر انسانی پالیسی مارو پھینکو شکار ہوچکے ہیں۔

انکا کہنا تھا بلوچستان میں روز افزوں بڑھتی انسانی حقوق کے ان خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے اور پاکستان کا اصل چہرہ دیکھنے کی خاطر بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن اپنے قیام سے لیکر آج تک کوشاں رہا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے تنظیم نے اقوام متحدہ میں ورکنگ گروپ کو بلوچستان میں بڑھتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پاکستانی مظالم کی نشاندہی کی گئی اور ساتھ ساتھ ورکنگ گروپ سے یہ اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے ان سنگیں خلاف ورزیوں پر نوٹس لے کر اپنا کردار ادا کریں اور خاص کر ان کی توجہ بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کے ان خلاف ورزیوں پر مبذول کرائی۔