انسانی حقوق کے ادارے بھائی کی بازیابی میں کردار ادا کریں، ہمشیرہ لاپتہ شبیر بلوچ

270
file photo

انسانی حقوق کے ادارے بھائی کی بازیابی میں کردار ادا کریں

شبیر بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف پریس کلب کے سامنے ایک ہفتے تک بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھی رہونگی

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق لاپتہ طالبعلم شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے بھائی کی عدم بازیابی کے خلاف بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئی ۔

تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ طالبعلم شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ نے بھائی کی عدم بازیابی کیخلاف احتجاجاً وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئی ہے۔

سیما بلوچ کا کہنا ہے کہ میرے بھائی کو 4 اکتوبر 2016 کو پاکستانی فوج نے گورکوپ سے اغواء کیا تھا جن کی آج تک کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے کہ وہ کس حال میں ہے جبکہ ہم نے شبیر بلوچ کی بازیابی کیلئے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرس سمیت احتجاجی مظاہرے کیے اور بھوک ہڑتالی کیمپ بھی قائم کیے۔

سیما بلوچ کا کہنا ہے کہ ہم نے کوئٹہ پریس کلب میں بھی پریس کانفرس سمیت ہائی کورٹ میں بھائی کی بازیابی کیلئے پٹیشن بھی دائر کی جبکہ آج میں وائس فار مسنگ پرسنز کے کیمپ میں احتجاجاً بھوک ہڑتال پے بیٹھی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ہفتے تک کیمپ میں بیٹھی رہینگی۔

انہوں نے انسانی حقوق کے اداروں اور کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں انسانی حقوق کے اداروں اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے افراد سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ میری آواز کو دوسروں تک پہنچائیں اور شبیر بلوچ کی بازیابی میں کردار ادا کرے۔

واضح رہے سیما بلوچ نے گذشتہ روز کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ 4 اکتوبر 2016 کو پاکستانی سیکورٹی فورسز نے شبیر بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کردیا لیکن ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں کہ کس جرم کی پاداش میں ہمارے بھائی کو یوں اٹھا کر لاپتہ کیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق اگر کسی شخص سے کوئی جرم سرد زد ہوجاتا ہے تو اسے عدالتوں کے رو برو پیش کیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں صورتحال مختلف ہے۔یہاں سے لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جاتا ہے اور کئی کئی دنوں تک تشدد کرنے کے بعد انکو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے جو انسان کو زندہ رہنے و آزادی سے اپنی زندگی گزارنے سے محروم رکھنا ہے جو انسانی حقوق کی بد ترین مثال ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم گذشتہ دو سالوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر میرا بھائی کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے عدالتوں کے رو برو پیش کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر قانونی اصولوں کے مطابق سزا کے عمل سے گزارا جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن یوں حبس بے جا ء میں رکھ کر اہلخانہ کو اذیت میں مبتلا کرنا انسانیت کی توہین کے مترادف ہوگا۔
بلوچستان کے اکثریتی خاندان اس اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ایک نوجوان بھائی کے لاپتہ ہونے کا مطلب گھر کے دیگر افراد کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا رکھنا ہے۔

یاد رہے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق بلوچستان سے اس وقت چالیس ہزار افراد لاپتہ ہے جبکہ ہزاروں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہے۔ تنظیم کا موقف ہے کہ ان افراد کو لاپتہ کرنے میں پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے ملوث ہیں۔