امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے آئندہ تیس روز میں یمن کے حوالے سے امن بات چیت اور ملکی بحران کے کسی حل تک پہنچنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ایران پر یمن میں تنازع بھڑکانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ تہران پر لازم ہے کہ وہ اس سے باز آ جائے۔
امریکی وزیر دفاع کے مطابق امن بات چیت کی شقوں میں فائر بندی، سرحدوں سے ہتھیاروں کا دور کیا جانا اور میزائلوں کو بین الاقوامی نگرانی کے تحت دینا شامل ہونا چاہیے۔ میٹس نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب اور امارات اس حوالے سے بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ “ہم تمام فریقوں سے چاہتے ہیں کہ وہ سویڈن میں ملاقات کریں اور ہتھیاروں سے خالی سرحدوں کو زیر بحث لائیں تا کہ حوثیوں کی جانب سے گھروں، شہروں اور ہوائی اڈوں کی جانب میزائلوں کے داغے جانے کا سلسلہ روکا جا سکے”۔
جیمز میٹس نے واضح کیا کہ “معرکوں کا سلسلہ رکنے سے یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹن گریفتھ کو موقع ملے گا کہ وہ مختلف فریقوں کو سویڈن میں ایک میز پر اکٹھا کرلیں۔ ہم اب سے ایک ماہ کے اندر تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر دیکھنا چاہتے ہیں”۔
انہوں نے کہا کہ ایرانیوں نے میزائلوں اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ کرنے والے بحری جہازوں کے ذریعے جہاز رانی کی آزادی کو معطل کر دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے مطابق ایران مشرق وسطی میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس جنگ کو بھڑکا رہا ہے تاہم وہ سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ میٹس نے دوٹوک انداز میں کہا کہ “اس جنگ کو ختم ہونا چاہیے”۔
امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ ایرانی حکومت اپنے عوام کا پیسہ بیرون ملک بہا رہی ہے ، شام کی جنگ ایرانی عوام کے لیے بے معنی ہے اور تہران عراق کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
میٹس نے مشرق وسطی کے حالات پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ شام میں امن کا یقینی بنایا جانا اس امر کا متقاضی ہے کہ جنیوا مذاکرات کے راستے پر چلا جائے اور ایرانی مداخلت کو روکا جائے۔
میٹس نے کہا کہ لبنانی ملیشیا حزب اللہ کو شام سے نکل جانا چاہیے تا کہ وہاں امن ہو سکے۔