سیاسی کینہ توزی
برز کوہی
دی بلوچستان پوسٹ
تجربات، مشاہدات، مطالعات اور تجزیات سے بالکل یہ بات حقیقت و منطقی اور حتمی ہے کہ جب چیزوں کے بارے میں بندے کو علم و شعور نہ ہو تو وہ لامحالہ سنی سنائی باتوں، رٹے بازی، مبالغہ آرائی اور عقائد پر گذارہ کرکے پھر یقین کرتے ہوئے کسی انجان قسم کی ریس میں پڑ کر بس دوڑتا ہی جاتا ہے، تا ابد گھومتا کسی گول دائرے میں، نہ آگے کا خبر نہ پیچھے کی خبر، اگر سیکھنے، سمجھنے اور جاننے کا عمل شروع ہو تو تب جاکر انسان یہ سمجھ پاتا ہے کہ میں کس طرح لاعلم اور ناسمجھ ہوں۔
عظیم فلسفی ول ڈیورنٹ کہتے ہیں “ہم میں صرف ایک ہی قابل فخر بات ہو اور وہ یہ کہ ہم اپنی جہالت اور نادانی کی تھاہ پاگئے ہوں، جتنا زیادہ ہم سیکھتے ہیں، اتنا ہی ہمیں اپنی کم علمی کا احساس ہوتا ہے اور ہر ترقی کا قدم ہمیں نئےمسائل اور نئے شکوک میں الجھاتا ہے۔”
ہمارے علاوہ بھی نظر رکھنے اور غور کرنے والی ایک دنیا ہے، ایک ترقی یافتہ اعلیٰ علم و فن کے مالک مہذب اقوام ہیں، جو سب کچھ دیکھ رہے ہیں، محسوس کررہے ہیں، مشاہدہ اور تجزیہ کرکے نتیجہ اخذ کررہے ہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔ہم ؟
ہم سب کو کیوں سادہ لوح، احمق، بے وقوف اور پتھر کے زمانے میں رہنے والے تصور کررہے ہیں؟ دنیا کو کیا سمجھ رہے ہیں؟ سب کے سب کو کیا ریڑیوں میں پکوڑے سموسے اور آلوچپس بیچنے والے سمجھتے ہیں؟
ویسے بھی کہتے ہیں کہ کم عقل اور کم شعور آدمی جیسا خود ہو، ویسا ہی سب کو سمجھتا ہے۔ یہی پھر نا سمجھی انسان کو کچھ نہ سمجھنے کی صحرا میں دھکیلاتا ہے۔ پھر انسان ہمیشہ جہالت میں، اندھیرے میں تلوار چلانا شروع کرتا ہے، پھر نتیجہ صفر جمع صفر ہوتا ہے، خود بے وقوف بن کر دوسروں کو بھی بے وقوف سمجھنا ہے۔
مصنوعیت کے لبادے میں فنکارانہ اور مکارانہ طرز عمل میں جھوٹ و فریب کی خوشنما بھڑک بازیوں، اصطلاحات اور دھوکے بازیوں میں لوگوں کو جھانسنا، خوش فہمی اور جھوٹی تسلیاں دیکر بےحس مفلوج اور ناکارہ پرزہ بنا دینا یا پھر ذات پات مراعات اور مفادات کے لیئے بطور ایندھن استعمال کرنا کم از کم میرے نزدیک انتہائی قابل نفرت اور قابل عبرت عمل ہے۔ انسانی لہو و پسینہ اور انسانی چھیتڑوں اور ٹکڑوں پر خود کو اپنے خاندان کو اور اپنے درباریوں کو پرآسائش، پرسکون اور آسودگی کی آغوش میں سلا دینا ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا، اس وقت جب مجموعی احساس جانکاری اور آگاہی عقل اور شعور پر سوار ہو۔
گوکہ جب علم و شعور نہ ہوگا تجربہ نہ ہوگا، آنکھوں، کانوں، دل و دماغ پر اندھا دھند اعتماد اور تقلید کی سیاہ نما پردہ عقل پر ہوگا تو ادراک اور آگاہی سے لاعلمی اور نابلدی ہوگی، اس وقت تک گناہ گار اور شریک جرم ہوتے ہوئے بھی بغیر جرم اور بے گناہ ہونا صحیح لیکن مکمل پارسا و مبرا ہونا ناممکن ہوگا۔
حقیقت اور اصل حقائق سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کلو میٹر دور مصنویت، دروغ گوئی، جھوٹ اور فریب کی خوش کن سبزہ زار میں دن رات ناکام صفت خوانی اور قیصدہ خوانی میں کچھ نہ کچھ جذباتی سادہ لوح نوجوانوں کو بھڑکانا، گمراہ کرنا اور سبز باغ دکھانا اور خوش فہمی میں مبتلا کرنا اور بے حسی میں مبتلا کرنا اور پھر ایسے وقتی طور پر متاثرہ نوجوانوں کو دیکھ کر اور محسوس کرکے ناقابل بیان دکھ، تکلیف، درد اور افسوس کا اظہار کرنا فطری عمل ہوگا۔
پھر اس قسم کے احساسات اور تکالیف میں چپ چاپ، بے حس، مصلحت پسندی، خوف، رواداری، لاتعلقی اور بیگانہ پن کا شکار ہونا شاید ہمارے بس کی بات نہ ہو۔ اور شاید آج اس قسم کی آراء اور حقائق کی احساسات کا اظہار منطق اور ثبوت بھی قابل قبول نہ ہو بلکہ متنازعہ پن اور نفرت کا نشانہ ہو لیکن کل اور مستقبل قریب، لفظ بہ لفظ، من و عن صحیح اور حقیقت ثابت ہوکر قابل قبول اور قابل تصدیق ہونگے۔ اسی احساس، امید و توقع ادراک اور شعور ہی کی بل بوتے ہر ممکن حد تک کچھ کہنا، سمجھنا اور سمجھانا قومی قرض بنتا ہے تاکہ زندہ ضمیر اور تاریخ کے جواب دہ اور احتساب سے بچ جانا ممکن ہو۔
میں بارہا کہہ چکا ہوں اور تحریر کرچکا ہوں اور بار بار کہتا رہوں گا۔ اور سادہ سیدھا اور واضح اور مدلل انداز میں نشاندہی کرچکا ہوں کہ بلوچ قومی سیاست اور قومی مزاحمت برائے قومی آزادی اور قومی ریاست کی بحالی اور تشکیل کی جہدوجہد میں کچھ نہ کچھ، کم یا زیادہ ایسے منفی قسم کے سوچ، زاویہ نظر، رویے اور طرز عمل دستیاب ہیں، جب تک اور اس وقت تک ان کی علمی، شعوری، ذہنی اور عملی بنیاد پر حوصلہ شکنی، بیخ کنی اور خاتمہ نہیں ہوگا، اس وقت تک کامیابی اور ترقی ممکن نہیں ہوگا۔ ہاں اگر ہزاروں کی تعداد میں بزرگوں، نوجوانوں، خواتین اور معصوم بچوں کے خون، پسینے، اغواء کاریوں، تباہ کاریوں اور درپدریوں کے اوپر پاؤں رکھ کر چڑھتے ہوئے صرف وقت گزاری اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کی چکر والا قصہ ہے تو پھر بلکل صحیح ہے اور صحیح چلتا جارہا ہے۔ پھر ایک مضبوط و منظم عوامی تحریک اور قومی قوت اور کامیابی کی سوچ اور تصور صرف ادھورا خواب ہی ہوگا۔
دنیا کے تمام تحریکات اور قائدین کا کردار و تاریخ اور اس وقت کے حالات و واقعات اور ان کے زمینی حقائق کے ساتھ انصاف نہ کہ دونمبری اور گڈ مڈ کے علاوہ موازانہ کرکے تنقیدی، تجزیاتی اور فلسفیانہ انداز میں غور کیا جائے اور ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سوچنا چاہیئے تو پھر صیح اندازہ ہوگا کہ ہم سوچ و عمل، کردار اور شعور کے حوالے سے کہاں پر کس مقام پر کھڑے ہیں؟
چلو پانچ منٹ کے لیئے ایسے ویسے بے عمل کتابی، لفاظی، بکواس قسم کی دلیلوں اور خوشنما تصوراتی خیالات اور مفروضات کو افسانہ اور جھوٹ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ کیا ہمارے اپنے زمینی حقائق، موجودہ حالت دشمن کی حکمت عملی و تیز رفتار پیش قدمی اور عالمی قوتوں کی بلوچ سرزمین پر یلغار کے مقابلے میں منصوبہ بندی اور حکمت عملی کس حد تک مطمئین کن اور موثر ہے؟
موجودہ جہدوجہد کو اب تقریباً 18 سال ہورہا ہے، اس 18 سال میں پاکستانی ریاست جس حد تک اور جتنی بار بلوچ جہدوجہد کو کاونٹر کرنے کی خاطر اپنی پالیسی اور حکمت عملی تبدیل کرچکا ہے اور کررہا ہے؟ وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں، لیکن بلوچ جہدوجہد میں تبدیلی کس حد تک اور کیسے اور کہاں ہوچکا ہے؟
کہنے کا اصل مقصد یہی ہے، علم نفسیات اور علم فلسفہ کے روشنی میں جب تک انسانی سوچ و رویے اور نقطہ نظر تبدیل نہیں ہوگا، اس وقت تک تبدیلی کا خواب دیکھنا، چرچا کرنا کسی بھی صورت میں عملاً تبدیلی ثابت نہیں ہوگا بلکہ صرف اور صرف زبانی جمع خرچ اور رٹے بازی ہوگا۔ طرز عمل اور طریقہ کار کی تبدیلی، انسانی نقطہ نظر، زاویہ نظر، سوچ اور رویوں کی تبدیلی پر منحصر ہے۔
یہ صرف قیاسی آرائی، ذاتی ذہنی اختراع اور ذہنی خرافات نہیں بلکہ علم نفسیات اور علم فلسفہ کی ناقابل ترید منطق اور دلیل ہیں۔ جن سے انکار کرنا خود جہالت لاشعوری اور کم علمی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔
پوری قیادت سے لیکر جہدکاروں تک، روایتی فکر و سوچ، نقطہ نظر اور زاویہ نظر سے عملاً نکلنا ہوگا، تب جاکر طرز عمل اور طریقہ کار بھی روایتی نہیں بلکہ مکمل انقلابی اور تحریکی ہوگا، تب قومی آزادی کی قومی تحریک کو کوئی بھی طاقت کامیابی سے نہیں روک سکتا۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔