افغان صدر کے مشیر برائے افغان قومی سلامتی، حمداللہ محب نے کہا ہے کہ ”کندھار کی صورت حال قابو میں ہے”، اور حالیہ حملے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک لایا جائے گا، اور ”دشمن کسی صورت سزا سے بچ نہیں سکتا”۔
‘عالمی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ ”طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ لیکن، ہم افغان عوام کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ طالبان کی پشت پناہی کرنے والے دشمن کو سخت سبق سکھایا جائے گا”۔
اُن سے پوچھا گیا آیا بیرونی مدد کے بغیر طالبان کے پاس اتنی بڑی سطح کے حملے کی استطاعت ہے، جس پر حمداللہ محب نے بتایا کہ ”اس وقت حملے کی تفتیش جاری ہے”، اور وہ ”قبل از وقت” کسی پر الزام نہیں دے سکتے۔
محب نے کہا کہ ”دشمن افغان عوام کو نقصان پہنچانے، خوف و ہراس پیدا کرنے اور عوام کی خدمت پر مامور اہلکاروں کو جانی و مالی نقصان پہنچانے کے لیے درکار وسائل اور ہر طرح کی زور آزمائی کر رہا ہے”۔
اُنھوں نے کہا کہ ”ہمارے مخالف افغانستان میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں، اور افغانستان کے دشمن بدامنی کی صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں”۔ تاہم، اس عزم پر قائم ہیں کہ افغانستان کو ایک ٹھوس نظام فراہم کریں۔
یاد رہے کہ جمعرات کو قندھار کے گورنر کے دفتر میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے میں اوروں کے علاوہ قندھار پولیس کے سربراہ جنرل عبدالرازق جانبحق ہوئے۔ حملے میں جنرل اسکاٹ مِلر محفوظ رہے، لیکن امریکی حکام نے کہا ہے کہ فائرنگ سے دو امریکی زخمی ہوئے۔
قومی سلامتی کے صدارتی مشیر نے کہا کہ ”انشا اللہ، بہت جلد ہم واقعے کی تفتیش مکمل کرلیں گے، جس کا جلد اعلان کیا جائے گا”۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان مفاہمت، زلمے خلیل زاد کے حالیہ دورے، خاص طور پر قطر میں افغان طالبان اور کابل میں صدر اشرف غنی سے ملاقاتوں کے بارے میں ایک سوال پر، حمداللہ محب نے کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ مقام اور طریقہ کار پر نظر نہ بھی ڈالی جائے تو بھی امن ہی افغانستان کے عوام کے لیے اہم ترین معاملہ ہے۔ لیکن، ساتھ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے کسی اقدام کے بغیر اصل امن ایک خواب ہی ہے”۔ اس ضمن میں اُنھوں نے کہا کہ اصل اقدام کا اختیار حکومت کے پاس ہے۔
انتخابات سے متعلق ایک سوال پر، حمد اللہ محب نے کہا کہ ”دشمن انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے دھمکیوں پر اترا ہوا ہے اور خلل ڈالتا رہا ہے۔ لیکن، آپ نے دیکھا کہ افغانستان کے طول و ارض میں عوام نے خطرات کی پرواہ کیے بغیر ووٹ ڈالے، وہ لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا”۔
اُنھوں نے کہا کہ پہلی بار، افغان حکومت نے انتخابات کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کیے، جو اقدام ”تکنیکی اور سلامتی” نوعیت کے تھے