وادی چترال میں کیلاش قبیلے کی پھولڑکا دلچسپ تہوار

636

چترال کے وادی بریر میں کیلاش قبیلے کے لوگ پھولڑ تہوار منارہے ہیں۔ اس تہوار میں پھولوں سے بنی ہوئی ٹوپیاں ان بچیو ں کے سروں پر رکھی جاتی ہیں جن کی عمریں دس سال ہوجاتی ہیں۔

چترال کے پہاڑوں کے دامن میں رہنے والے کیلاش قبیلے کے لوگ اپنی مخصوص ثقافت، رسم و رواج، مذہبی تہوار اور نرالی لبا س کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔کیلاش قبیلے کے لوگ سال میں دو بڑے اور دو چھوٹے تہوارو ں کے علاوہ ایک خاص تہوار بھی مناتے ہیں جنہیں پھولڑ تہوار کہا جاتا ہے۔ پھولڑ یا پھول تہوا ر صرف وادی بریر میں منایا جاتا ہے باقی دو وادیوں یعنی رمبور اور بمبوریت میں اسے نہیں منایا جاتا۔

اس تہوار میں پھولوں سے خاص قسم کی ٹوپیاں بنائی جاتی ہیں جو ان بچیوں کے سروں پر رکھی جاتی ہیں، جن کی عمریں دس اور گیارہ سال تک پہنچ جاتی ہیں جبکہ اس تہوار میں وادی کے لوگ اخروٹ اور انگور بھی درختوں سے اتا ر کر گھروں میں سردیوں کیلئے ذخیرہ کرتے ہیں۔

حسب روایت اس سال بھی پھولڑ کی تہوار وادی بریر میں نہایت زور و شور سے منائی گئی جس میں پھول جیسے بچیوں کے سروں پر پھولوں سے بنی ہوئی ٹوپیاں رکھ کر پھول تہوار کی مزے کو دوبالا کیا گیا جبکہ کیلاش خواتین ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ ڈال کر قدم سے قدم ملاکر گول دائرے میں رقص پیش کرتی رہی اور مرد حضرات ڈھولک بجاتے رہیں۔

تہوار کے دوران کیلاش قبیلے کے مذہبی رہنماء جن کو مقامی زبان میں قاضی کہا جاتا ہے جو مرد اور خواتین پر مشتمل ہوتے ہیں، وہ مذہبی گیت گاتے ہیں جبکہ عمر رسیدہ عورتیں ان کے سر پر ٹوپی میں پچاس، سو، پانچ سو او ر ایک ہزار روپے کا نوٹ رکھ کر ا ن کی ٹوپیوں کو نوٹوں سے سجاتے ہیں جو عزت کی نشانی سمجھی جاتی ہیں اور چند کیلاش خواتین ان گانے والے قاضیوں کے جیب میں بھی پیسے رکھ دیتی ہیں۔

تہوار کے دوران مرد اور عورتیں اکٹھے بھی رقص پیش کرتے ہیں۔ اس دوران کیلاش کی بوڑھیاں ان بچیوں کو رقص کے میدان سے باہر ایک جگہ بٹھاتے ہیں اور ان کے سروں پر پھولوں سے بنی ہوئی ٹوپیاں رکھتے ہیں اور ان کو روایتی پکوان بھی پیش کی جاتی ہے ۔اس تہوار میں ان بچیوں کو زرد رنگ کے زرق برق کپڑے سے بنے ہوئے گاؤن بھی پہنایا جاتا ہے جو عام طور پر اس چمکیلے کپڑے سے بنے ہوئیں ہوتے ہیں یہ چوغہ صر ف کیلاش کے مذہبی رہنماؤں یعنی قاضیوں کو پہنایا جاتا ہے مگر اس تہوار میں یہ چوغہ صرف ان بچیوں کو پہنا یا جاتا ہے اور بعد میں ان کو رقص گاہ لے جاکر ان کو رقص سکھایا جاتا ہے۔

یہ بچیاں کچھ دیر تک اس میدان میں رقص کرتی ہیں اس کے بعد ایک فرد آکر ان کی ٹوپی سر سے اتار کر کسی کو پھینک دیتا ہے جسے اٹھا کر وہ اس بڑے میدان میں جاتا ہے جو پہاڑی کے قریب اونچائی پر واقع ہے اور یہ سب لوگ اس کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں چلے جاتے ہیں جہاں مرد اور خواتین اکھٹے رقص پیش کرتے ہیں ۔ یہ چھوٹے پھول جیسے بچیاں یہاں بھی رقص پیش کرتی ہیں جن کو ان کے بڑے سکھاتی ہیں ۔
رنگ اور رقص کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جبکہ مرد ڈھولک بجاتے ہیں عصر کے بعد ایک اور مرد آکر ان بچیوں سے یہ ٹوپی لیکر پہاڑ کی طرف دوڑتا ہے اور باقی ٹوپیاں بھی ایک ایک کرکے اوپر پھینک دیئیجاتے ہیں۔

اس سال پھول تہوا ر کودیکھنے چین، سکاٹ لینڈ، برطانیہ اور امریکہ سمیت دوسرے کئی ممالک سے سیاح آئے تھے۔سیاحوں نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اتنی پر رونق تہوار پہلی بار دیکھی ہے۔