فورسز کی بڑے پیمانے پر تعیناتی کی وجہ سے بلوچستان مالی بحران کا شکار ہے- اسلم رئیسانی

115

 سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کوئی حکومت نہیں بلکہ چوں چوں کا مربہ ہے۔

گوادر بلوچستان کا اٹوٹ انگ ہے ، باہر سے لوگوں کو لاکر مسلط کرنے اور توسیع پسندانہ منصوبے کسی صورت قبول نہیں۔سی پیک میں بلوچستان کے مفادات کا تحفظ ہونا چاہیے۔تمام تر اوچھے ہتھکنڈے کے باوجود بلوچستان کے عوام نے ووٹ کی طاقت کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی نا پسندیدہ حرکتوں کو رد کردیا۔

افسوس ہے کہ انتخابات کے دوران میر غوث بخش بزنجو کے فلسفے کو بندوق کے حوالے کیا گیا۔بلوچستان میں مالی بحران کی بڑی وجہ فورسز کی بڑے پیمانے پر تعیناتی اور ان کے اخراجات کی صوبائی حکومت سے وصولی کرنا ہے۔

 ان خیالات کا اظہار انتخابات میں کامیابی کے بعد مستونگ میں اپنے آبائی علاقے کانک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر بی این پی کے رہنماء لشکری رئیسانی ، منظور بلوچ، سکندر ملازئی ،سیاسی و قبائلی عمائدین بھی موجود تھے۔

نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ 14 اکتوبر کے انتخابات سے قبل اور انتخاب کے دن بھی دھاندلی کی تمام کوششیں کی گئیں۔ دھونس دھمکیوں ، اغواء اور بلیک میلنگ کے ذریعے لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔

قلات ڈویژن کے دو حلقوں میں انتخابات ہورہے تھے مگر انتخابات سے چند روز قبل کمشنر قلات کو تبدیل کیاگیا۔ یہ اوچھے ہتھکنڈے اڑھائی دن میں بننے والی جماعت کو جتانے کیلئے کئے گئے مگر مستونگ ، وڈھ ا ور بلوچستان کے عوام نے اسلام آباد اور اقتدار کی حامل قوتوں کو واضح پیغام دے دیا کہ ہم کسی کو بھی اپنی سرزمین پر بے جا مداخلت اور کسی اور کو کہیں سے اور لاکر یہاں بسانے کو قبول نہیں کریں گے۔

اسٹیبلشمنٹ کبھی باہر سے لوگوں کو لاکر شہریت کے نام پر بسانے ،کبھی باہر سے لوگوں کو لاکربلوچ عوام پر مسلط کرنے جیسی ناپسندیدہ حرکتیں کررہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مستونگ کے انتخابات میں سرکاری پارٹی کے امیدوار کا تعلق مستونگ سے تھا ہی نہیں۔ مشرقی بلوچستان سے امیدوار کو لاکریہاں کھڑا کیا گیا۔

سردار کمال بنگلزئی ایک محترم سردار ہیں اور یہاں کے رہنے والے ہیں لیکن سرکاری پارٹی کے امیدوار کے ووٹ ان سے زیادہ تھے۔باہر سے آنیوالے شخص کو کس طرح یہاں ووٹ ملے یہ دھاندلی کی صاف مثال ہے۔