نظریہِ آزادی و قومی بقاء
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
فرد کی زندگی جان و تن کےتعلق سے قائم ہے، اور قوم کی زندگی اپنی قدیم روایات کے تحفظ سے قائم رہتی ہے۔ فرد کی موت جوے حیات خشک ہوجانے سے واقع ہوجاتی ہے اور قوم کی موت مقصودِ حیات ترک کردینے سے.فرد ہو یا قوم، نظریے اور مقصود حیات کے بغیر اس کی ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔ کسی شاعر نے اس نکتے کو بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے.
زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن
مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات.
آج دنیا میں ایک بار پھر نظریات کی بالادستی، مقاصد اور اقدار بطور اصل کار فرما قوت کے فہم اور حصول کی پیاس بڑھ رہی ہے، عصر حاضر میں پیدا شدہ عالمی، تہذیبی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی بحران کا حل ایک بار پھر نظریاتی آدرشوں میں تلاش کیا جا رہا ہے. بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اصل بحران اخلاقی بحران ہے نظریاتی شعور کی پستی کا بحران ہے جس نے انسانی زندگی اور اس کے مستقبل کو خوف ناک چیلنج سے دو چار کر دیا ہے.
انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ جن قوموں اور انسانوں کے سامنے کوئی نظریہ اور منزل تھی، ان ہی نے اوراقِ تاریخ اور دامنِ تہذیب میں نام پیدا کیا. نظریہ غلط ہو یا درست، شر پہ مبنی ہو یا خیر کا علم مہیا کرے دونوں ہی صورتوں میں وہ ہمیشہ زندگی کی نشوونما،پیش رفت اور ترقی کے لیے ایک بنیادی محرک رہا ہے.البتہ نظریہ اگر حق پر مبنی ہے تو اس سے انسانی زندگی اور دنیائے تہذیب میں خیر اور فلاح کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اگر وہ باطل پر مبنی ہے تو یہ جہان تگ و دو فساد کی لپیٹ میں آجاتا ہے.
ہمارے ہاں المیہ یہ کہ کہا جاتا ہے کہ اس نظریاتی بحث میں پڑنے سے بھلا کون سا مسئلہ حل ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ مخصوص لابیز نے بلوچ قومی تحریک کو اپنے دہلیز کا لونڈی تصور کرکے اس کی اصل شکل کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور نظریاتی رشتے کو کمزور بنانے کے لیئے، وہ سارا جال بُنا جس کے نتیجے میں بلوچ قومی و نظریاتی اساس کے اندر مزید پیچیدگیاں جنم لے چکی ہیں. حالانکہ سیانا دشمن اسی جڑ پر تیشہ چلا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک بلوچ قومی تحریک نظریاتی اساس پر قائم رہیگی ان کے عزائم خاک میں ملیں گے. اسی لیئے انہوں نے ہمیشہ نظریاتی رشتوں کو نشانہ بناکر ان میں توڑ پھوڑ پیدا کرنے کی کوشش کی جس سے اپنوں نے خاصہ کردار ادا کیا اور کررہے ہیں. لیکن میں کہتا چلوں اس وقت تک اس تحریک کی تخریب ممکن نہیں ہوگی، جب تک کہ ایک بھی نظریاتی و فکری سنگت اس زمین پر موجود ہو،اس مقصد کی حفاظت کرینگے اور اس کی بنیادوں پر اپنے سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی مستقبل کی تعمیر کریں گے یہ نہیں کہ یہ سوچا جائے کہ نظریے کے آگے اجارہ داری معتبر ٹھرے گا۔
یاد رہے کہ ہم جن مسائل میں گھرےہوئے ہیں، اس کا واحد حل قوی بنیادوں پر یکجہتی ہی ہے لیکن یکجہتی ان سے نا جو شہداء کے جذبات و قربانیوں سے کھیل رہے ہیں اور یکجہتی کی بازیافت اور نظریاتی اصولوں کی پاسداری مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے.چائینا کا یلغار، ہمارا داخلی انتشار پاکستانی قبضہ گیریت سے چھٹکارا، سیاسی و اخلاقی بحران سے نکلنا ان سب کا علاج اسی سے ممکن ہے. نیت ٹھیک نہ ہو تو اسے محض ایک نظری بات کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے لیکن اگر نیت درست ہو تو قومی وژن قومی تحریک کی یہ رہنمائی شہید قائد غلام محمد بلوچ کے فلسفہ ِ جدوجہد کو اپنا شعار بنا کر شہداء کے خون کا پکار سن کر الجھی راہوں کو صراط مستقیم بنانا ناممکن نہیں ہوگا۔
بلوچ قومی تحریک آزادی مابعدِ قبضہ گیریت کے 70 سال طے کرچکا ہے اور مخصوص لابی کی شرانگیز عالمی مہم کے نتیجے میں جن حالات سے دوچار ہے، اسی لئے تو گذشتہ دنوں بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے اس جانب زور دیا تھا کہ جنگی منافع خوروں کی ریشہ دوانیوں سے عالمی سطح پر بلوچ کاز کو نقصان پہنچا ہے.’متحدہ قومی قوت‘ کے لیے خطرہ اور ’ترک مقصود حیات‘ کے تباہ کن راستے کی طرف دھکیلے جانے کا سامنا اور پیچیدہ خطرات پاکستان سمیت بین الاقوامی یلغار کا بروقت مقابلہ بلوچ قومی تحریک لئے آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔