کون بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا؟ ۔ سمیر جیئند بلوچ

886

کون بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا؟

تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جہاں جہاں جائیں چیزوں کو پرکھیں اسکے دو ہی پہلو نظر آئیں گے، الفاظ متضاد یا مثبت اور منفی مثلاَ دن ہے تو رات ،آندھی طوفان ہے تو اعتدال اور خشک موسم یا نم، الغرض جس شعبے پر نظر دوڑائیں تو اس کے دو ہی پہلو دستیاب ہونگے اس طرح ایک طرف منشیات ایک لعنت اور انسانی جانیں نگلتا ہے تو دوسری جانب وہاں یہی انسانی جان بچانے کیلئے دوا بن جاتاہے اور نئی زندگی عطاء کرتاہے۔ اب یہ سماج کے علم و دانش پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیسے، کب کہاں ،منفی یا مثبت استعمال کرتے ہیں۔ فرض کریں اگر حساس اور تباہ کن چیزیں پسماندہ سماج اور جاہلوں کے ہاتھ لگیں گے تو انکے منفی استعمال کا رجحان زیادہ ہوگا کیونکہ جہالت کی سبب وہاں یہ اپنی جڑیں مضبوط کرکے وسعت پائیں گے۔ اس کے مقابلے میں اگر یہ عاقل اور تہذیب یافتہ سماج کے ہاتھ لگیں گے تو وہ اس کا منفی پہلو چھوڑ کراس سے مثبت کام لینا شروع کریں گے۔یعنی ایک طرف یہی منشیات جوکہ انسانیت کیلئے زہر قاتل ہے وہاں مثبت استعمال پر زندگیاں بانٹنا شروع کریگا۔ قطع نظر ان چیزوں کے جب ہم پاکستانی سماج بارے مطالعہ یا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہاں جہالت ایسی سرایت کے شکل میں مل جاتا ہے کہ ہر کوئی پاؤں سے لیکر سر تک اس میں دھنسا ہے۔ نتیجتاَ جہالت اور مذہبی روایت کے بدولت مذہبی جنونیت بھی ایسے سرایت کرتا ہوا نظر آئے گاکہ ظاہری لگژری گاڑیوں اور بنگلوز کے مالک اور ایم فل، پی ایچ ڈی سکالر کے ڈگریوں کے مالک ہوتے ہونگے مگر دماغ بھوسے سے کچھا کھچ بھرے ملیں گے۔ مذیدان کے علم و دانش کی قلعی اس وقت کھل جائے گی جب یہ نام نہاد ڈگری ہولڈر آپ کو بن بلائے مہمان کی طرح ،ٹھگ باباؤں وغیرہ یا تھڑے پر بیٹھنے والے پامسٹوں کو اپنے ہاتھ دکھاتے ہوئے ملیں گے۔اس وقت ان کے جذبات قابل دیدنی ہوتی ہے گویا دنیا اب ہی ان کی مٹھی میں
آگیا یا آگئی ہے۔ یہی مذہبی جنونی ( آپ کو بھی علم ہے کہ مذہبی جنونی صرف مدرسوں سے نہیں بلکہ پاکستان کے سرکاری سے لیکر پرائیوٹ بڑے بڑے فوجی اسکولوں سے مشینی چوزے کی طرح نکلتے ہوئے دستیاب ہوتے ہیں )ماشاء اللہ ہر دونمبر دھندے میں چائے جوا ہو، قحبہ خانہ یا کنجروں کے کوٹھے یہی طبقہ زیادہ چلاتے ہوئے نظر آئیں گے۔

اسکے علاوہ بڑے بڑے بیوپاری اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کرنے والے اور بڑے بڑے منشیات فروش یہی لمبی لمبی داڑھیوں والے ہی دکھائی دیں گے۔ جب ان کی گہرائی میں جھانکیں گے تو یہ لمبی لمبی داڑھی والے پھر دو خول میں ملیں گے ایک سول اشرافیہ دوسرا جوکہ پاور فل ہے وہ سابقہ یا حاضر سروس فوجیوں کی شکل میں دستیاب ہونگے۔ کیونکہ پاکستانی اشرافیہ اور اشرافیہ کا باپ فوج اور ایجنسیوں کے براہ راست یا بلاواسطہ ڈانڈے ان سے ملیں گے۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوگا کہ ایسا پھر کیوں ہے جب کیوں کا پیچھا ہی نہیں چھوڑیں گے تو چشمے کی صاف پانی کی طرح دکھائی دے گاکہ مملکت منافقستان کے مالک اوپر نیچے دائیں بائیں یہی تو بے ضمیر وحشی اور درندے ہیں کیونکہ یہ منافقستان(پاکستان) انکے باپ انگریز نے انھیں عطاء کی ہے انہیں کے نام کتونی ہے یا لینڈ مافیا کی صورت میں دھونس دھمکی سے قبضہ کیا ہے۔ ان کے خیال میں ہمارے علاوہ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں اسی سوچ نے انھیں اندھا کیا ہے۔ جس کی وجہ سے بے حس عالمی نام نہاد تہذیب یافتہ قوموں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بلوچ نسل کشی کے ساتھ ساتھ پشتون سندھی اور مہاجروں کی قتل عام اور مرد او خواتین سمیت بچوں اور بزرگوں کو دن دہاڑے اغواہ کرکے اپنے مذہبی جنونیوں کے حوالے کر دیتے ہیں جنہیں اذیتیں دے دیکر اجتماعی قبروں میں ٹھونسا جاتاہے۔

یہ وہ ریاستی دہشت گردی ہے جو اعلانیہ امن و امان کے نام پر قابض فوج کرتی ہے۔ وہ یہ بات کبھی نہیں کرتے کہ یہ اقوام ہم سے آزادی کا حق مانگتے ہیں مجھ سے بیزار ہیں۔ اس طرح یہ کشت خون رواں دواں ہے دوسری جانب جو عوام آزادی نہیں مانگتے آنکھیں نیچی کرکے اس کے پنجوں میں جینا چاہتے ہیں یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم بابت اندھے گونگے بہرے، لنگڑ ے لولے اور مکمل بے حس ساکت ہیں ان میں منشیات کا زہر چھوڑ کر تماشائی بن کر ان کے ہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ اس لئے کہ منشیات سے اربوں ڈالر کمائے جاتے یا آرہے ہوتے ہیں جن کی بدولت وہ عیش عشرت کباب و شباب کے مزے اڑاتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ پھر سماج کا وہ طبقہ جو منشیات سے دور ہے اس کیلئے اپنے ہاتھوں سے دونمبرسے چار نمبر کے زندگی بچانے کے ادویات کے نام پر زہر پھیلا نا شروع کردیتے ہیں۔ سادہ عوام انھیں بھاری قیمتوں میں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں یہیں سے حاصل ہونے والا بھاری رقم پھر انھیں اشرافیہ میں تقسیم ہوجاتاہے گویا عوام کروڑوں ڈالر فوجی ڈسٹ بینوں میں پھینک دیتے ہیں، جنھیں لوگ مندرج بالا ناموں سے جانتے ہیں۔

عوام کا چوتھا طبقہ جو نہ منشیات حتی کہ دوائی کا سکت نہیں رکھتے یعنی یہاں اس سرمایے میں اپنا خون پسینہ نہیں بہا سکتے انکو زیارت، درباروں، خانقاہوں کے نام پر لوٹا جاتاہے جہاں سماجی زندگی سے تھکے ہارے عوام آکر اپنا مال پیسہ حتی کہ زیور بھی بڑے بڑے سرکاری تجوریوں میں بزرگوں کے نام پر ڈال دیتے ہیں جونہی وہ پیچھے مڑتے ہیں عین اسی وقت یہ رقم نکال کر پھر انھیں جیبوں میں چلا جاتا ہے جہاں پہلے تھا۔ اب یہ ذمہ داری عاقل جاہل تہذیب یافتہ بدتہذیب ترقی یافتہ یا ترقی پزیر افراد یا ملکوں میں سے کسی پر عائد ہوتی ہے کہ ان میں سے کوئی سرپر کفن باندھ کر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھیں کیونکہ سانپ کی طرح یہ فوج پرائے سمیت اپنے انڈے یا بچے کھانے کے علاوہ پوری انسانیت کو مختلف شکلوں میں کھا رہی ہے ۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔